چند ماہ قبل دارالحکومت دہلی کے شمال مشرقی حصے میں ہوئے فرقہ وارانہ فسادات میں اقلیتی طبقہ کو سب سے زیادہ جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا جبکہ دہلی پولیس کی گرفتاریوں میں بھی اقلیتی فرقہ سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد زیادہ ہے۔
اب سوال یہ اٹھتا ہے کہ کیا اقلیتی فرقہ کے لوگوں نے اپنے ہی لوگوں کو نقصان پہنچایا ہے؟ انہیں اب گرفتار کیا جا رہا ہے جبکہ مرکز میں برسر اقتدار بی جے پی حکومت سے جڑے لوگوں کو نفرت انگیز بیانات دیتے ہوئے سب نے دیکھا ہے باقاعدہ اسے نیشنل ٹیلی-ویژن پر بھی دکھایا گیا ہے اس کے باوجود دہلی پولیس ان پر کوئی کارروائی کرتی نظر نہیں آ رہی ہے۔
یہاں تک کہ معروف حقوق انسانی کے علمبردار ہرش مندر کا نام بھی فسادات بھڑکانے کے لیے چارج شیٹ میں داخل کر دیا گیا ہے لیکن جنہوں نے فسادات بھڑکانے کی دھمکی دی تھی ان کا نام کہیں بھی شامل نہیں کیا گیا ہے۔
اسی سے متعلق ای ٹی وی بھارت کے نمائندے سے معروف سماجی کارکن شیخ علیم الدین اسعدی سے بات کی جس میں انہوں نے بتایا کہ فرقہ پرست طاقتیں ضرور اس وقت متحرک ہیں اور اقلیتی طبقہ کے ساتھ ظلم کیا جا رہا ہے لیکن انہیں یقین ہے کہ عدلیہ اس پر انصاف کرے گا اور جو بے گناہ ہیں انہیں جلد از جلد رہا کیا جائے گا۔
دہلی فسادات کے تعلق سے چارج شیٹ تیار کرنے میں دہلی پولیس پر فرقہ وارانہ جانبداری کے الزامات لگ رہے ہیں ہیں۔ دو بڑی مسلم جماعتوں نے دہلی پولیس پر مسلم ملزمین کے خلاف سخت سزا کے تحت مقدمات درج کرنے اور ہندو ملزمین کے لیے ہلکی پھلکی سزا کے مقدمات درج کرنے کے الزامات عائد کئے ہیں۔
وضح رہے کہ دہلی کے شمال مشرقی خطے میں ہوئے فسادات کے دوران بلوائیوں نے اقلیتی برادری کی عبادت گاہوں کو بھی بڑی تعداد میں نقصان پہنچایا گیا تھا۔
ایک رپورٹ کے مطابق تقریباً 28 مساجد اور مدارس کو پہلے لوٹا گیا اور اس میں آتشزنی کی گئی۔ مسلمانوں کے گھروں کو جلایا گیا اور گیس سلنڈروں سے آگ لگائی گئی تھی۔