نئی دہلی: جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کی سابق لیڈر شہلا رشید پر فوج کے خلاف جھوٹی خبر پھیلانے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔ شہلا نے 18 اگست سنہ 2019 کو کئی ٹویٹ کیے تھے جس میں انھوں نے فوج کے ذریعہ کشمیریوں پر مبینہ طور پر ظلم کی بات کہی تھی۔ ان ٹویٹس کو دیکھتے ہوئے دہلی پولیس نے شہلا کے خلاف غداری کا مقدمہ درج کیا تھا تبھی بھارتی فوج نے شہلا رشید کے تمام الزامات کو مسترد کر دیا تھا۔ تب سے یہ معاملہ عدالت میں زیر التوا ہے۔ لیفٹیننٹ گورنر ونے کمار سکسینہ نے اب حکومت کی جانب سے بھیجی گئی فائل پر شہلا کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کی منظوری دے دی ہے۔ فروری 2019 میں جب جواہر لعل نہرو یونیورسٹی میں ایک پروگرام کے دوران مبینہ طور پر ملک مخالف نعرے لگائے گئے تو شہلا رشید جے این یو کی نائب صدر اور کنہیا کمار صدر تھے۔ ملک مخالف نعروں کے الزامات میں گھرے کنہیا کو جیل جانا پڑا تھا تب شہلا رشید بچ گئیں۔ شہلا رشید پولیس ہیڈکوارٹر سے لے کر مختلف مقامات پر ہونے والے مظاہروں میں مبینہ طور پر شامل رہیں۔ Sedition Case Against Shehla Rashid
شہلا رشید نے کنہیا کمار پر لگائے گئے متعدد الزامات کی تردید کے ساتھ ساتھ مخالفین کی تنظیم کو کٹہرے میں کھڑا کر دیا تھا۔ اس کی تفتیش ابھی جاری ہے۔ شہلا رشید نے جے این یو سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد این آئی ٹی سرینگر سے انجینئرنگ کی۔ اس کے بعد شہلا نے بطور انجینئر بھی کام کیا۔ جس کے بعد وہ سیاست میں آگئیں۔ لیکن یہاں انہیں کوئی کامیابی نہیں ملی۔ بتادیں کہ اگست 2019 میں جب کشمیر سے آرٹیکل 370 ہٹانے کا بل پارلیمنٹ میں پاس ہوا تو شہلا رشید نے اس کی شدید مخالفت کی تھی۔ جموں و کشمیر میں دفعہ 370 کے خاتمے کے بعد ان کے بیانات سرخیوں میں رہے۔ جموں و کشمیر سے آرٹیکل 370 ہٹانے کے حوالے سے انہوں نے متعدد احتجاج میں مبینہ طور پر شرکت کی اور آرٹیکل 370 کو بحال کرنے کا پرزور مطالبہ کیا۔ Sedition Case Against Shehla Rashid
یہ بھی پڑھیں : شہلا رشید کے ٹویٹ پر ہنگامہ، بھارتی فوج کا شدید ردعمل