ETV Bharat / state

آصف اقبال تنہا کے متعلق معلومات لیک ہونے کے معاملے میں سماعت آج

19 اکتوبر 2020 کو عدالت نے میڈیا کے ایک ادارے کو اس کے ذرائع بتانے کی ہدایت کی تھی۔ اس پر میڈیا ادارے کی جانب سے ایڈوکیٹ وجے اگروال نے کہا کہ انہیں اپنے ذرائع کا انکشاف کرنے پر مجبور نہیں کیا جانا چاہئے کیونکہ یہ پریس کی آزادی کے منافی ہے جہاں اگر ذرائع کا تحفظ نہ کیا گیا تو پریس کی آزادی کی خلاف ورزی ہوگی۔ تب عدالت نے کہا کہ اسے یقین نہیں ہے کہ کسی بھی صحافی کو یہ حق ہے کہ وہ کیس ڈائری نکال کر اسے خبروں کی طرح چلائے۔

author img

By

Published : Mar 5, 2021, 11:14 AM IST

delhi high court
delhi high court

دہلی ہائی کورٹ آج دہلی تشدد معاملے میں جیل میں قید جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالب علم آصف اقبال تنہا کی معلومات لیک ہونے کے معاملے میں سماعت کرے گا۔

گذشتہ سماعت کے دوران عدالت نے ادھوری رپورٹ داخل کرنے پر دہلی پولیس کی سرزنش کی تھی۔ اس معاملے میں جسٹس مکتا گپتا نے خصوصی سیل کے کمشنر کو طلب کیا تھا۔

تفتیشی ایجنسی کو معلومات لیک ہونے سے نقصان ہوا

سماعت کے دوران دہلی پولیس کی جانب سے وکیل امت مہاجن نے کہا تھا کہ معلومات کا لیک ہونا غیر متوقع تھا اور اس سے تفتیشی ایجنسی کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ اس کے بعد عدالت نے کہا کہ منصفانہ تحقیقات کے لئے میڈیا لیک کو روکنا چاہئے۔ عدالت نے واضح طور پر کہا تھا کہ اس لیک کے لئے صرف دہلی پولیس ہی ذمہ دار ہے۔

جرم ہونے پر کارروائی کی جاسکتی ہے

سماعت کے دوران امت مہاجن نے تشویش کا اظہار کیا تھا کہ حکام متعلقہ صحافی کے خلاف کارروائی کرسکتے ہیں۔ اس پر عدالت نے کہا کہ اگر کوئی جرم ہوا ہے تو پھر کسی پر بھی کارروائی کرنے پر پابندی نہیں ہے۔ خفیہ معلومات وہ دستاویز نہیں ہے جو سڑک پر پڑی ہو۔ اس میں غفلت کے لئے افسر ذمہ دار ہے۔

ویجیلنس تحقیقات مکمل ہوچکی ہے

اٹھارہ جنوری 2021 کو عدالت نے دہلی پولیس کو ہدایت دی تھی کہ وہ معلومات لیک کرنے کی ویجیلنس رپورٹ داخل کرے۔ دہلی پولیس کی جانب سے 26 نومبر 2020 کو سماعت کے دوران ایڈوکیٹ امت مہاجن نے کہا کہ معلومات کے افشا ہونے کی ویجیلنس جانچ مکمل ہوچکی ہیں۔ سماعت کے دوران وکیل سدھارتھ اگروال نے آصف اقبال تنہا کی جانب سے کہا تھا کہ معلومات لیک کر کے قابل اعتراف جرم کیا گیا ہے اور اس کے خلاف ضروری کارروائی کی جانی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ تنہا کے بارے میں معلومات لیک کرنے والی میڈیا تنظیم نے پروگرام کوڈ کی خلاف ورزی کی ہے۔

فیس بک اور یوٹیوب کو پارٹیوں کی فہرست سے ہٹایا گیا

عدالت نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز فیس بک اور یوٹیوب کو اس معاملے میں فریقین کی فہرست سے ہٹا دیا۔ فیس بک کی جانب سے سینئر ایڈوکیٹ مکل روہتگی نے کہا کہ وہ صرف ایک انٹرمیڈیٹ پلیٹ فارم ہے اور اس خبر سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں ہے کیونکہ میڈیا اداروں نے یہ خبر اپلوڈ کردی ہے۔ اگر عدالت ان خبروں کو ہٹانے کا حکم دیتی ہے تو فیس بک سے اسے ہٹا دیا جائے گا۔

میڈیا اداروں کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ معلومات کے ذرائع کو ظاہر کرے

واضح ہو کہ 19 اکتوبر 2020 کو عدالت نے میڈیا کے ایک ادارے کو اس کے ذرائع بتانے کی ہدایت کی تھی۔ اس پر میڈیا ادارے کی جانب سے ایڈوکیٹ وجے اگروال نے کہا کہ انہیں اپنے ذرائع کا انکشاف کرنے پر مجبور نہیں کیا جانا چاہئے کیونکہ یہ پریس کی آزادی کے منافی ہے جہاں اگر ذرائع کا تحفظ نہ کیا گیا تو پریس کی آزادی کی خلاف ورزی ہوگی۔ تب عدالت نے کہا کہ اسے یقین نہیں ہے کہ کسی بھی صحافی کو یہ حق ہے کہ وہ کیس ڈائری نکال کر اسے خبروں کی طرح چلائے۔

پولیس افسر کے ذریعہ معلومات لیک کرنا قابل قبول نہیں

سماعت کے دوران عدالت نے کہا تھا کہ وہ میڈیا اداروں کی بات سنے بغیر ان کے خلاف کوئی حکم نہیں دے سکتی۔ عدالت نے کہا تھا کہ جس پولیس افسر نے یہ معلومات لیک کی ہے، وہ ناقابل قبول ہے اور دہلی پولیس کے وکیل اس سے اتفاق کریں گے۔ سماعت کے دوران وکیل سدھارتھ اگروال نے تنہا کی جانب سے کہا کہ ان کی ضمانت کی درخواست ٹرائل کورٹ میں زیر سماعت ہے لیکن میڈیا میں تنہا کے خلاف جس طرح کی باتیں آرہی ہیں۔ وہ لوگوں اور سماعت کر رہے جج کے ذہن کو تبدیل کر سکتی ہیں۔

میڈیا ٹرائل کا الزام

درخواست میں میڈیا میں آئی ان خبروں کی تردید کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے فسادات بھڑکانے میں اپنے کردار کا اعتراف کیا ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے انہیں کچھ دستاویزات پر دستخط کرنے کے لئے دباؤ ڈالا گیا تھا۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ جو معلومات جاری کی جارہی ہیں اس کے شواہد کی صورت میں کوئی قدر نہیں ہے لیکن میڈیا میں پیش کر میڈیا ٹرائل کیا جا رہا ہے۔

تنہا ایس آئی او کے رکن ہیں

دہلی پولیس کے مطابق طالب علم اسٹوڈنٹ اسلامک آرگنائزیشن کے رکن ہیں اور شاہین باغ کے ابوالفضل انکلیو میں رہتے ہیں۔ وہ جامعہ رابطہ کمیٹی کے ایک اہم رکن ہیں جس کے ذریعہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہروں کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ دہلی پولیس کے مطابق تنہا، عمر خالد، شرجیل امام، میران حیدر اور صفورا زرگر کے قریبی ساتھی ہیں۔

دہلی ہائی کورٹ آج دہلی تشدد معاملے میں جیل میں قید جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طالب علم آصف اقبال تنہا کی معلومات لیک ہونے کے معاملے میں سماعت کرے گا۔

گذشتہ سماعت کے دوران عدالت نے ادھوری رپورٹ داخل کرنے پر دہلی پولیس کی سرزنش کی تھی۔ اس معاملے میں جسٹس مکتا گپتا نے خصوصی سیل کے کمشنر کو طلب کیا تھا۔

تفتیشی ایجنسی کو معلومات لیک ہونے سے نقصان ہوا

سماعت کے دوران دہلی پولیس کی جانب سے وکیل امت مہاجن نے کہا تھا کہ معلومات کا لیک ہونا غیر متوقع تھا اور اس سے تفتیشی ایجنسی کو بھی نقصان پہنچا ہے۔ اس کے بعد عدالت نے کہا کہ منصفانہ تحقیقات کے لئے میڈیا لیک کو روکنا چاہئے۔ عدالت نے واضح طور پر کہا تھا کہ اس لیک کے لئے صرف دہلی پولیس ہی ذمہ دار ہے۔

جرم ہونے پر کارروائی کی جاسکتی ہے

سماعت کے دوران امت مہاجن نے تشویش کا اظہار کیا تھا کہ حکام متعلقہ صحافی کے خلاف کارروائی کرسکتے ہیں۔ اس پر عدالت نے کہا کہ اگر کوئی جرم ہوا ہے تو پھر کسی پر بھی کارروائی کرنے پر پابندی نہیں ہے۔ خفیہ معلومات وہ دستاویز نہیں ہے جو سڑک پر پڑی ہو۔ اس میں غفلت کے لئے افسر ذمہ دار ہے۔

ویجیلنس تحقیقات مکمل ہوچکی ہے

اٹھارہ جنوری 2021 کو عدالت نے دہلی پولیس کو ہدایت دی تھی کہ وہ معلومات لیک کرنے کی ویجیلنس رپورٹ داخل کرے۔ دہلی پولیس کی جانب سے 26 نومبر 2020 کو سماعت کے دوران ایڈوکیٹ امت مہاجن نے کہا کہ معلومات کے افشا ہونے کی ویجیلنس جانچ مکمل ہوچکی ہیں۔ سماعت کے دوران وکیل سدھارتھ اگروال نے آصف اقبال تنہا کی جانب سے کہا تھا کہ معلومات لیک کر کے قابل اعتراف جرم کیا گیا ہے اور اس کے خلاف ضروری کارروائی کی جانی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ تنہا کے بارے میں معلومات لیک کرنے والی میڈیا تنظیم نے پروگرام کوڈ کی خلاف ورزی کی ہے۔

فیس بک اور یوٹیوب کو پارٹیوں کی فہرست سے ہٹایا گیا

عدالت نے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز فیس بک اور یوٹیوب کو اس معاملے میں فریقین کی فہرست سے ہٹا دیا۔ فیس بک کی جانب سے سینئر ایڈوکیٹ مکل روہتگی نے کہا کہ وہ صرف ایک انٹرمیڈیٹ پلیٹ فارم ہے اور اس خبر سے ان کا کوئی لینا دینا نہیں ہے کیونکہ میڈیا اداروں نے یہ خبر اپلوڈ کردی ہے۔ اگر عدالت ان خبروں کو ہٹانے کا حکم دیتی ہے تو فیس بک سے اسے ہٹا دیا جائے گا۔

میڈیا اداروں کو حکم دیا گیا تھا کہ وہ معلومات کے ذرائع کو ظاہر کرے

واضح ہو کہ 19 اکتوبر 2020 کو عدالت نے میڈیا کے ایک ادارے کو اس کے ذرائع بتانے کی ہدایت کی تھی۔ اس پر میڈیا ادارے کی جانب سے ایڈوکیٹ وجے اگروال نے کہا کہ انہیں اپنے ذرائع کا انکشاف کرنے پر مجبور نہیں کیا جانا چاہئے کیونکہ یہ پریس کی آزادی کے منافی ہے جہاں اگر ذرائع کا تحفظ نہ کیا گیا تو پریس کی آزادی کی خلاف ورزی ہوگی۔ تب عدالت نے کہا کہ اسے یقین نہیں ہے کہ کسی بھی صحافی کو یہ حق ہے کہ وہ کیس ڈائری نکال کر اسے خبروں کی طرح چلائے۔

پولیس افسر کے ذریعہ معلومات لیک کرنا قابل قبول نہیں

سماعت کے دوران عدالت نے کہا تھا کہ وہ میڈیا اداروں کی بات سنے بغیر ان کے خلاف کوئی حکم نہیں دے سکتی۔ عدالت نے کہا تھا کہ جس پولیس افسر نے یہ معلومات لیک کی ہے، وہ ناقابل قبول ہے اور دہلی پولیس کے وکیل اس سے اتفاق کریں گے۔ سماعت کے دوران وکیل سدھارتھ اگروال نے تنہا کی جانب سے کہا کہ ان کی ضمانت کی درخواست ٹرائل کورٹ میں زیر سماعت ہے لیکن میڈیا میں تنہا کے خلاف جس طرح کی باتیں آرہی ہیں۔ وہ لوگوں اور سماعت کر رہے جج کے ذہن کو تبدیل کر سکتی ہیں۔

میڈیا ٹرائل کا الزام

درخواست میں میڈیا میں آئی ان خبروں کی تردید کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے کہ انہوں نے فسادات بھڑکانے میں اپنے کردار کا اعتراف کیا ہے۔ درخواست میں کہا گیا ہے انہیں کچھ دستاویزات پر دستخط کرنے کے لئے دباؤ ڈالا گیا تھا۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ جو معلومات جاری کی جارہی ہیں اس کے شواہد کی صورت میں کوئی قدر نہیں ہے لیکن میڈیا میں پیش کر میڈیا ٹرائل کیا جا رہا ہے۔

تنہا ایس آئی او کے رکن ہیں

دہلی پولیس کے مطابق طالب علم اسٹوڈنٹ اسلامک آرگنائزیشن کے رکن ہیں اور شاہین باغ کے ابوالفضل انکلیو میں رہتے ہیں۔ وہ جامعہ رابطہ کمیٹی کے ایک اہم رکن ہیں جس کے ذریعہ شہریت ترمیمی قانون کے خلاف مظاہروں کی حوصلہ افزائی ہوئی۔ دہلی پولیس کے مطابق تنہا، عمر خالد، شرجیل امام، میران حیدر اور صفورا زرگر کے قریبی ساتھی ہیں۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.