عالمی وبا کرونا وائرس نے مختلف شعبوں کو معاشی طور پر کمزور کیا ہے ان میں مغلئی کھانوں کے لیے مشہور باورچی بھی شامل ہیں۔
پرانی دہلی وہ علاقہ جہاں اب بھی مغلئی کھانوں کے ماہر کئی باورچی موجود ہیں اور انہی کے ذریعہ متعدد نئی ڈشز بھی ایجاد کی گئی جسے آج ہم اپنے دستر خوان پر نوش فرماتے ہیں۔
ان باورچیوں کے پاس شاندار کچن تو نہیں ہوتا لیکن ان کے کھانے کا ذائقہ بڑے بڑے ریسٹورنٹ کو پیچھے چھوڑ دیتا ہے۔
ای ٹی وی بھارت کے نمائندے سے بات کرتے ہوئے ان باورچیوں نے بتایا کہ گذشتہ برس کے مقابلے رواں برس کام محض 10 فیصد رہ گیا ہے، پہلے کام سے فرصت نہیں ملتی تھی لیکن اب فرصت کے علاوہ کوئی کام نہیں ہے۔
اپنے پر دادا کے ذریعے شروع کئے گئے کھاناول کے کاروبار آگے بڑھانے والے محمد فیضان نے بتایا کہ 'انہوں نے یہ فن اپنے والد سے اور میرے والد نے میرے دادا سیکھا ہے لیکن ہم نے اس طرح کے حالات کے بارے میں کسی سے بھی اور کبھی بھی نہیں سنا تھا جس طرح کے حالات آج ہیں۔
اس کے علاوہ ببلو باورچی نے بتایا کہ 'پہلے ان کے ساتھ 25 افراد کھانا بنانے کا کام کرتے تھے لیکن موجودہ حالات میں صرف تین لڑکے ہیں اپنی خدمات انجام دے رہے ہیں