ETV Bharat / state

دہلی اسمبلی انتخابی نتائج: ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں - معروف سینئیر صحافی اور تجزیہ نگار سنجے کپور

عام آدمی پارٹی (آپ) کی واضح اکثریت پر مبنی کامیابی سے بی جے پی رہنماوں کو بہت کچھ سوچنا پڑا۔ بی جی پی کی جان توڑ کوششیں اور جارحانہ انداز کام نہیں آسکا۔ پییش ہے معروف سینیئر صحافی اور تجزیہ نگار سنجے کپور کی تحریر:

دہلی اسمبلی انتخابی نتائج: ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
دہلی اسمبلی انتخابی نتائج: ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں
author img

By

Published : Feb 12, 2020, 12:10 AM IST

Updated : Mar 1, 2020, 1:14 AM IST

بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی مالی اعانت سے چلنے والی جارحانہ مہم نے دہلی انتخابات میں عام آدمی پارٹی (آپ) کیے جیے کے بارے میںکئی طرح کے شکوک و شبہات پیدا کردیئے تھے۔ لیکن اروند کیجریوال نے نہ صرف شکوک و شبہات کو شکست دی، بلکہ بی جے پیرہنماوں کو سوچنا پڑا۔

آپ نے 70 نشتوں والے اسمبلی حلقے میں جملہ 62 نشستیں حاصل کیں اور وہ اگلے پانچ برس تک دہلی پر حکمرانی کرنے کے لئے تیار ہے۔ اس طرح وہ آزادانہ حکمرانی سے لطف اندوز ہوسکتی ہے جو کہ دوسری ریاستوں کے لیے حسد کا سبب بن سکتا ہے، جو اپنے آزادانہ طور پر پانی اور بجلی کے ماڈل کی نقل اتارنے کے خواہاں ہیں۔

اس انتخابات کو جیتنے کے لیے بی جے پی نے 'سی اے اے اور این آر سی کے ریفرنڈم' میں تبدیل کرنے کی کوشش کی، لیکن 'آپ' نے اپنی سرگرمیوں کے ذریعے نادانستہ اور نادانستہ طور پر یہ ثابت کیا کہ دہلی کے لوگوں کی ضروریات مختلف ہیں۔ وہ (عوام) بی جے پی کے بیانیے پر یقین نہیں رکھتے تھے۔

بی جے پی نے شاہین باغ کے احتجاج کو موضوع بنا کر انتخابات کو مذہبی خطوط پر مبنی بنانے کی کوشش کی، جہاں خواتین 60 دن سے زیادہ احتجاج کررہی ہیں۔

بی جے پی رہنماوں کا کہنا تھا کہ یہ احتجاج ملک دشمن ہیں اور انہیں قومی سلامتی سے متضاد قوتوں کی حمایت حاصل ہے۔ یقینا بی جے پی کے لیے یہ مدعہ کام نہیں آیا اور نہ ہی مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر اور پرویش ورما کی تقریر اور نعرے کام آئے۔

یوپی کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے اس وقت بالکل ہی نئے انداز میں یہ کہا کہ 'بریانی' مخصوص لوگوں اور مخصوص ذہنیت کے حامل بیانیے کی علامت ہے۔ انھوں نے مسلمانوں کے بارے میں دقیانوسی تصورات کو پھیلانے کی کوشش کی اور اس ساتھ کہ ان کی بات نہ سننے والوں پر فائرنگ کا حکم دے سکتے ہیں۔

دہلی کے لوگ انتخابی تشہیر کے دوران مخصوص شہریوں کو نشانے بنانے کے بیانات سے متعلق تشویش میں مبتلا تھے، اس کے علاہ کچھ لوگوں نے جامعہ اور شاہین باغ میں مظاہرین پر گولیاں بھی چلائی گئی تھی۔

بی جے پی کا خیال تھا کہ دہلی کے لوگوں کو جو تکلیف ہوئی ہے اس کی وجہ سے وہ ایک داستان رقم کرنے میں مددگار ثابت ہوں گے، لیکن وہ سراسر غلط ثابت ہوا۔ اس کے بجائے آپ کی تعداد 63 نشستوں تک پہنچ گئی۔ اگر ہم دیکھتے ہیں کہ کیجریوال نہ صرف 6 سال کی حکومت مخالف نتیجہ (اینٹی انمبینسی) کا مقابلہ کررہے تھے بلکہ بی جے پی کی جارحانہ قوم پرستی کی مہم بھی ناکامی کی شکار ہوگئی۔

کانگریس نے نئے طور پر انتخابی عمل میں داخلہ لیا تھا۔ اس نے 70 نشتوں والے اسمبلی حلقے میں ایک نشت کے لیے بھی کھاتہ نہیں کھولا۔

بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ آپ اور کانگریس کے مابین واضح فرق ہے۔

کانگریس کے ایک سینئر رکن پارلیمنٹ کے ٹی ایس تلسی نے واضح طور پر اس طرح کا دعوی کیا ہے۔ اس تاثر کو اس حقیقت سے تقویت ملی ہے کہ کانگریس نے ووٹنگ کے دن سے 72 گھنٹے قبل تک پرینکا یا راہول گاندھی میں سے کسی کو نہیں سامنے لایا تھا۔ وہ گم نام تھے۔

بہت سارے مبصرین کا خیال ہے کہ کانگریس کی قیادت میں ایک کمزور مہم کے ذریعہ ظاہر ہوتا ہے کہ کانگریس کا ان انتخابات میں کوئی زیادہ دلچسپی نہیں تھی اور بی جے پی کے خلاف مزاحمت پیدا کرنے کے بہتر متبادل نہیں تھا۔

کانگریس کے پاس آپ یا بی جے پی کے بجائے ترقیاتی کاموں کے معاملے میں زیادہ کام کرنے کے مواقع تھے۔

کانگریس 2019 کے پارلیمنٹ انتخابات میں دوسرے نمبر پر آئی تھی۔ ایک اور دلیل جو کانگریس کی قیادت کو یہ دی گئی تھی کہ انہیں دہلی انتخابات سے دور رہنا چاہئے وہ یہ ہے کہ یہ میونسپل انتخابات کی طرح ہے اور آپ کے نظریاتی طور پر علمی ہونے کی وجہ سے جیتنے کا ایک بہتر موقع تھا۔

سچ تو یہ ہے کہ اگر کانگریس جارحانہ طور پر لڑتی تو بی جے پی کو بڑا فائدہ ہوتا۔ بی جے پی نے جو کچھ نشستیں حاصل کیں وہ آپ کے ووٹ میں کانگریس کے کھانے کی وجہ سے تھیں۔ دوسرے لفظوں میں اے اے پی کو کانگریس کا شکر گزار ہونا پڑے گا کہ انہوں نے اس اہم ووٹ کو جیتنے میں ان کی مدد کی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ دہلی کے انتخابات اس وقت ہوئے جب پارلیمنٹ میں سی اے اے کے پاس ہونے کے بعد دارالحکومت دہلی میں بہت زیادہ ہی گرم جوشی محسوس کی گئی۔

گزشتہ برس 15 دسمبر کو دہلی پولیس نے CAA مخالف مظاہروں کو توڑنے کی کوشش میں جامعہ ملیہ یونیورسٹی کے کیمپس میں داخل ہوئی اور طلباء کو بے رحمی کے ساتھ مار پیٹ کیا۔ طالبات کو بھی نہیں بخشا گیا۔

طلبا کے احتجاج پر ریاست کا پرتشدد رد عمل گن رہا تھا۔ اسی اثنا میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور اتر پردیش کے دیگر کیمپس اور شہروں میں طلبا کے مظاہروں پر وحشیانہ زیادتی کی گئی۔

جامعہ کے واقعہ کے بعد ہی شاہین باغ کی خواتین نے قریبی پارک میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا، جو اثر و رسوخ کے اعتبار سے بڑی چیز میں بدل گیا۔

ان خواتین نے بھارتی آئین کی قسم کھائی تھی اور باقاعدگی سے اس کی پیش کش پڑھتی ہی چلی گئی۔

شاہین باغ کا نمونہ پورے ملک میں پھیل گیا اور طلبا اس احتجاج کے لیے سرگرداں رہے۔

ہر جگہ انھیں ریاست کے دو ٹوک رویہ کا سامنا کرنا پڑا اور اس کی درجہ بندی ہوگئ

ایک نیوز چینل کے ذریعہ کئے گئے سروے میں یہ بات ظاہر ہوگئی ہے کہ 20 فیصد سے زیادہ نوجوان بی جے پی سے الگ ہوگئے ہیں۔ اور یہ وہی تبدیلی ہے جس نے بی جے پی کے پرتشدد بیانیہ کو مسترد کردیا ہے۔

دہلی میں ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں نوجوانوں نے بزرگوں سے لڑائی لڑی تھی کہ انہیں بی جے پی کو ووٹ کیوں نہیں دینا چاہئے۔ یہاں تک کہ ان میں سے کچھ نے عجیب و غریب طور پر اپنے والدین کو بھی بند کر دیا تھا جن کے خیال میں وہ بی جے پی کو ووٹ دیں گے۔

دہلی کے انتخابات سے دارالحکومت میں ترقی کے سلسلے میں واضح پیش رفت کی امید ہے۔ یہ صرف اقلیتیں ہی نہیں جو بی جے پی کے خلاف مزاحمت کررہی ہیں، بلکہ نوجوانوں کو سیکولر اقدار سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملا ہے اور یہ پہچان لیتے ہیں کہ اگر ملک میں مذہبی فاشزم بڑھتا ہے تو وہ کیا کھو سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں ہر کیمپس میں طلبہ نئے انداز سے غور و فکر کررہے ہیں۔

بی جے پی کی قیادت کو خود سے یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ قومی سلامتی کے معاملات اور جارحانہ مذہبی پولرائزیشن ان کی ریاستی انتخابات میں مدد کرتی ہے یا نہیں؟۔

بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی مالی اعانت سے چلنے والی جارحانہ مہم نے دہلی انتخابات میں عام آدمی پارٹی (آپ) کیے جیے کے بارے میںکئی طرح کے شکوک و شبہات پیدا کردیئے تھے۔ لیکن اروند کیجریوال نے نہ صرف شکوک و شبہات کو شکست دی، بلکہ بی جے پیرہنماوں کو سوچنا پڑا۔

آپ نے 70 نشتوں والے اسمبلی حلقے میں جملہ 62 نشستیں حاصل کیں اور وہ اگلے پانچ برس تک دہلی پر حکمرانی کرنے کے لئے تیار ہے۔ اس طرح وہ آزادانہ حکمرانی سے لطف اندوز ہوسکتی ہے جو کہ دوسری ریاستوں کے لیے حسد کا سبب بن سکتا ہے، جو اپنے آزادانہ طور پر پانی اور بجلی کے ماڈل کی نقل اتارنے کے خواہاں ہیں۔

اس انتخابات کو جیتنے کے لیے بی جے پی نے 'سی اے اے اور این آر سی کے ریفرنڈم' میں تبدیل کرنے کی کوشش کی، لیکن 'آپ' نے اپنی سرگرمیوں کے ذریعے نادانستہ اور نادانستہ طور پر یہ ثابت کیا کہ دہلی کے لوگوں کی ضروریات مختلف ہیں۔ وہ (عوام) بی جے پی کے بیانیے پر یقین نہیں رکھتے تھے۔

بی جے پی نے شاہین باغ کے احتجاج کو موضوع بنا کر انتخابات کو مذہبی خطوط پر مبنی بنانے کی کوشش کی، جہاں خواتین 60 دن سے زیادہ احتجاج کررہی ہیں۔

بی جے پی رہنماوں کا کہنا تھا کہ یہ احتجاج ملک دشمن ہیں اور انہیں قومی سلامتی سے متضاد قوتوں کی حمایت حاصل ہے۔ یقینا بی جے پی کے لیے یہ مدعہ کام نہیں آیا اور نہ ہی مرکزی وزیر انوراگ ٹھاکر اور پرویش ورما کی تقریر اور نعرے کام آئے۔

یوپی کے وزیر اعلی یوگی آدتیہ ناتھ نے اس وقت بالکل ہی نئے انداز میں یہ کہا کہ 'بریانی' مخصوص لوگوں اور مخصوص ذہنیت کے حامل بیانیے کی علامت ہے۔ انھوں نے مسلمانوں کے بارے میں دقیانوسی تصورات کو پھیلانے کی کوشش کی اور اس ساتھ کہ ان کی بات نہ سننے والوں پر فائرنگ کا حکم دے سکتے ہیں۔

دہلی کے لوگ انتخابی تشہیر کے دوران مخصوص شہریوں کو نشانے بنانے کے بیانات سے متعلق تشویش میں مبتلا تھے، اس کے علاہ کچھ لوگوں نے جامعہ اور شاہین باغ میں مظاہرین پر گولیاں بھی چلائی گئی تھی۔

بی جے پی کا خیال تھا کہ دہلی کے لوگوں کو جو تکلیف ہوئی ہے اس کی وجہ سے وہ ایک داستان رقم کرنے میں مددگار ثابت ہوں گے، لیکن وہ سراسر غلط ثابت ہوا۔ اس کے بجائے آپ کی تعداد 63 نشستوں تک پہنچ گئی۔ اگر ہم دیکھتے ہیں کہ کیجریوال نہ صرف 6 سال کی حکومت مخالف نتیجہ (اینٹی انمبینسی) کا مقابلہ کررہے تھے بلکہ بی جے پی کی جارحانہ قوم پرستی کی مہم بھی ناکامی کی شکار ہوگئی۔

کانگریس نے نئے طور پر انتخابی عمل میں داخلہ لیا تھا۔ اس نے 70 نشتوں والے اسمبلی حلقے میں ایک نشت کے لیے بھی کھاتہ نہیں کھولا۔

بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ آپ اور کانگریس کے مابین واضح فرق ہے۔

کانگریس کے ایک سینئر رکن پارلیمنٹ کے ٹی ایس تلسی نے واضح طور پر اس طرح کا دعوی کیا ہے۔ اس تاثر کو اس حقیقت سے تقویت ملی ہے کہ کانگریس نے ووٹنگ کے دن سے 72 گھنٹے قبل تک پرینکا یا راہول گاندھی میں سے کسی کو نہیں سامنے لایا تھا۔ وہ گم نام تھے۔

بہت سارے مبصرین کا خیال ہے کہ کانگریس کی قیادت میں ایک کمزور مہم کے ذریعہ ظاہر ہوتا ہے کہ کانگریس کا ان انتخابات میں کوئی زیادہ دلچسپی نہیں تھی اور بی جے پی کے خلاف مزاحمت پیدا کرنے کے بہتر متبادل نہیں تھا۔

کانگریس کے پاس آپ یا بی جے پی کے بجائے ترقیاتی کاموں کے معاملے میں زیادہ کام کرنے کے مواقع تھے۔

کانگریس 2019 کے پارلیمنٹ انتخابات میں دوسرے نمبر پر آئی تھی۔ ایک اور دلیل جو کانگریس کی قیادت کو یہ دی گئی تھی کہ انہیں دہلی انتخابات سے دور رہنا چاہئے وہ یہ ہے کہ یہ میونسپل انتخابات کی طرح ہے اور آپ کے نظریاتی طور پر علمی ہونے کی وجہ سے جیتنے کا ایک بہتر موقع تھا۔

سچ تو یہ ہے کہ اگر کانگریس جارحانہ طور پر لڑتی تو بی جے پی کو بڑا فائدہ ہوتا۔ بی جے پی نے جو کچھ نشستیں حاصل کیں وہ آپ کے ووٹ میں کانگریس کے کھانے کی وجہ سے تھیں۔ دوسرے لفظوں میں اے اے پی کو کانگریس کا شکر گزار ہونا پڑے گا کہ انہوں نے اس اہم ووٹ کو جیتنے میں ان کی مدد کی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ دہلی کے انتخابات اس وقت ہوئے جب پارلیمنٹ میں سی اے اے کے پاس ہونے کے بعد دارالحکومت دہلی میں بہت زیادہ ہی گرم جوشی محسوس کی گئی۔

گزشتہ برس 15 دسمبر کو دہلی پولیس نے CAA مخالف مظاہروں کو توڑنے کی کوشش میں جامعہ ملیہ یونیورسٹی کے کیمپس میں داخل ہوئی اور طلباء کو بے رحمی کے ساتھ مار پیٹ کیا۔ طالبات کو بھی نہیں بخشا گیا۔

طلبا کے احتجاج پر ریاست کا پرتشدد رد عمل گن رہا تھا۔ اسی اثنا میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی اور اتر پردیش کے دیگر کیمپس اور شہروں میں طلبا کے مظاہروں پر وحشیانہ زیادتی کی گئی۔

جامعہ کے واقعہ کے بعد ہی شاہین باغ کی خواتین نے قریبی پارک میں بیٹھنے کا فیصلہ کیا، جو اثر و رسوخ کے اعتبار سے بڑی چیز میں بدل گیا۔

ان خواتین نے بھارتی آئین کی قسم کھائی تھی اور باقاعدگی سے اس کی پیش کش پڑھتی ہی چلی گئی۔

شاہین باغ کا نمونہ پورے ملک میں پھیل گیا اور طلبا اس احتجاج کے لیے سرگرداں رہے۔

ہر جگہ انھیں ریاست کے دو ٹوک رویہ کا سامنا کرنا پڑا اور اس کی درجہ بندی ہوگئ

ایک نیوز چینل کے ذریعہ کئے گئے سروے میں یہ بات ظاہر ہوگئی ہے کہ 20 فیصد سے زیادہ نوجوان بی جے پی سے الگ ہوگئے ہیں۔ اور یہ وہی تبدیلی ہے جس نے بی جے پی کے پرتشدد بیانیہ کو مسترد کردیا ہے۔

دہلی میں ایسی مثالیں موجود ہیں جہاں نوجوانوں نے بزرگوں سے لڑائی لڑی تھی کہ انہیں بی جے پی کو ووٹ کیوں نہیں دینا چاہئے۔ یہاں تک کہ ان میں سے کچھ نے عجیب و غریب طور پر اپنے والدین کو بھی بند کر دیا تھا جن کے خیال میں وہ بی جے پی کو ووٹ دیں گے۔

دہلی کے انتخابات سے دارالحکومت میں ترقی کے سلسلے میں واضح پیش رفت کی امید ہے۔ یہ صرف اقلیتیں ہی نہیں جو بی جے پی کے خلاف مزاحمت کررہی ہیں، بلکہ نوجوانوں کو سیکولر اقدار سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملا ہے اور یہ پہچان لیتے ہیں کہ اگر ملک میں مذہبی فاشزم بڑھتا ہے تو وہ کیا کھو سکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں ہر کیمپس میں طلبہ نئے انداز سے غور و فکر کررہے ہیں۔

بی جے پی کی قیادت کو خود سے یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ قومی سلامتی کے معاملات اور جارحانہ مذہبی پولرائزیشن ان کی ریاستی انتخابات میں مدد کرتی ہے یا نہیں؟۔

Last Updated : Mar 1, 2020, 1:14 AM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.