خواتین کا کہنا ہے کہ 'عدالت کے تمام احکامات سر آکھوں پر ہیں لیکن شاہین باغ مظاہرے کے تعلق سے عدالت نے سماعت کو 24 فروری تک کے لیے ملتوی کردیا ہے۔'
اس کے بعد مظاہرے پر بیٹھی خواتین نے جو رد عمل ظاہر کیا ہے، اس کے مطابق عدالت کے ہر فیصلہ کا احترام کیا جائے گا، مگر عدالت یہ بھی دیکھے کہ جس قانون کے خلاف مظاہرہ کیا جارہا ہے، اس پر کوئی نظر ثانی نہیں کی جارہی ہے۔
خواتین نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 'وہ عدالت کے ہر فیصلے کو تسلیم کریں گی تاہم مشورے کے بعد آگے کی حکمت عملی طے کی جائےگی۔'
اس کے باوجود عدالت کے سڑک خالی کرنے کی بات پر کوئی بھی متفق نظر نہیں آ رہے ہیں۔
شاہین باغ مظاہرے کے دوران مشہور ہونے والی دبنگ دادیوں میں سے ایک نے کہا کہ 'ہمارا احتجاج جاری ہے اور اس وقت تک جاری رہے گا جب تک حکومت اس قانون کو واپس نہیں لیتی۔'
انہوں نے کہا کہ 'ہم لوگ سیاہ قانون کے خلاف بیٹھی ہیں اور جب تک حکومت اسے واپس نہیں لیتی، اس وقت تک ہمارا مظاہرہ اور دھرنا جاری رہے گا۔'
شاہین باغ میں جاری مظاہرہ میں خاتون مظاہرین نے واضح کر دیا کہ جب تک اس قانون کو واپس نہیں لیا جاتا اس وقت تک ان کا پر امن مظاہرہ جاری رہے گا۔ یہ ردعمل سپریم کورٹ کے مذاکرات کار مقرر کرنے اور سماعت کو 24 فروری تک ملتوی کرنے کے بعد آیا۔
واضح رہے کہ سپریم کورٹ نے دہلی کے شاہین باغ مظاہرین کو وہاں سے ہٹانے پر راضی کرانے کے لیے پیر کو سینیئر ایڈووکیٹ سنجے ہیگڑے کو مذاکرات کار مقرر کیا ہے اور معاملے کی سماعت 24 فروری تک ملتوی کر دی۔ جسٹس سنجے کشن کول اور جسٹس کے ایم جوزف پر مشتمل ڈویژن بنچ نے مسٹر ہیگڑے کو اپنے تعاون کے لیے دو مزید افراد کے انتخاب کی اجازت دی۔ تاہم اس کے لیے مسٹر ہیگڑے نے خود سینیئر ایڈوکیٹ سادھنا رام چندرن کے نام کی تجویز پیش کی۔ مذاکرات کار شاہین باغ مظاہرین سے بات کرکے اپنی رپورٹ 24 فروری کو عدالت میں پیش کریں گے۔
سماجی کارکن اور مظاہرہ میں شامل ملکہ خاں اور نصرت آراء نے سپریم کورٹ کے مذاکرات کار مقرر کرنے کو مثبت قدم قرار دیتے ہوئے کہا کہ 'پہلے آئیں اور ہماری تکلیف کو سنیں اور یہ سمجھیں۔ ہم یہاں کیوں بیٹھی ہیں۔'
انہوں نے کہا کہ حکومت یہ سمجھ رہی ہے کہ ہم یہاں کوئی شوق سے بیٹھی ہیں تو غلط سوچ رہی ہے اور ان کا یہ نظریہ موضوع سے توجہ ہٹانے کے لیے ہے۔ انہوں نے کہاکہ یہ حکومت ہمارے ہی ووٹ سے بنی ہے اور پھر ہم سے ہی شہریت کا ثبوت کیوں طلب کررہی ہے۔
انہوں نے کہاکہ شاہین باغ مظاہرین ہمیشہ بات چیت کے لئے تیارہے ہیں لیکن اب تک کوئی بات چیت کے لئے شاہین باغ نہیں آیا ہے۔
انہوں نے سالیسٹر جنرل تشار مہتا کے ان باتوں کی تردید کی کہ ہم نے وہاں کے لوگو ں سے ملاقات بھی کی اور ان کو سمجھایا کہ وہ اس طرح سے شہر کے ایک حصے کو بند نہیں کر سکتے۔
انہوں نے کہاکہ تشار مہتا شاہین باغ مظاہرین سے کبھی بات نہیں کی۔ انہوں نے کہاکہ حکومت کو اور کچھ لوگوں یا عدالت کو روڈ کی فکر بہت ہے لیکن یہاں بیٹھی خواتین مظاہرین کی فکر نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ جب حکومت اس قانون کو واپس نہیں لیتی اس وقت تک ہم اپنا مظاہرہ جاری رکھیں گی۔ ان خاتون مظاہرین نے کہاکہ گزشتہ دو ماہ سے زائد سے ہم لوگ مظاہرہ کر رہی ہیں اپنے گھر اور بچوں کو چھوڑ کر یہاں بیٹھی ہیں، حکومت کو اس کا احساس نہیں ہے۔
انہوں نے کہاکہ روڈ کے بند ہونے سے شاہین باغ کے لوگوں کوبھی پریشانی ہے کیوں کہ یہی ان کا راستہ ہے لیکن یہاں کے لوگ اس سیاہ قانون ہونے والی تکلیف کی وجہ سے بیٹھے ہیں۔ انہوں نے امیدظاہر کی کہ مذاکرات کار ہماری تکلیف کو سنیں گے اور سمجھیں گے۔ محترمہ مریم،شبینہ اور ترنم نے بھی اسی طرح کے خیال کا اظہار کیا۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ میں قومی شہریت (ترمیمی)قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف طلبہ اور عام شہری 24 گھنٹے احتجاج کررہے ہیں۔ اس کے علاوہ دہلی میں قومی شہریت (ترمیمی)قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف خاتون مظاہرین کا دائرہ پھیلتا جارہاہے اور دہلی میں ہی درجنوں جگہ پر خواتین مظاہرہ کر رہی ہیں اور اس فہرست میں ہر روز نئی جگہ کا اضافہ ہورہا ہے۔ نظام الدین میں شیو مندر کے پاس خواتین کامظاہرہ جوش و خروش کے ساتھ جاری ہے۔
شاہین باغ کے بعد خوریجی خواتین مظاہرین کا اہم مقام ہے۔خوریجی خاتون مظاہرین کا انتظام دیکھنے والی سماجی کارکن اور ایڈووکیٹ اور سابق کونسلر عشرت جہاں نے بتایا کہ گزشتہ رات خوریجی خواتین مظاہرہ سے متعدد اہم شخصیات نے خطاب کیا۔اسی کے ساتھ اس وقت دہلی میں حوض رانی، گاندھی پارک مالویہ نگر‘ سیلم پور جعفرآباد، ترکمان گیٹ،بلی ماران، کھجوری، اندر لوک، شاہی عیدگاہ قریش نگر، مصطفی آباد، کردم پوری، نور الہی کالونی، شاشتری پارک،بیری والا باغ، نظام الدین،جامع مسجد سمیت ملک تقریباً سیکڑوں مقامات پر مظاہرے ہورہے ہیں۔
اس کے علاوہ راجستھان کے بھیلواڑہ کے گلن گری میں خواتین کے احتجاج جاری ہیں۔راجستھان کے کوٹہ، رام نواس باغ جے پور، جودھ پور’اودن پور اور دیگر مقامات پر خواتین کے مظاہرے ہورہے ہیں۔اسی طرح مدھیہ پردیش کے اندورمیں کئی جگہ مظاہرے ہور ہے ہیں۔ اندور میں کنور منڈلی میں خواتین کا زبردست مظاہرہ ہورہا ہے۔ وہاں کے منتظم نے بتایا کہ اس سیاہ قانون کے تئیں یہاں کی خواتین کا جذبہ قابل دید ہے اوراندور سمیت پورے مدھیہ پردیش میں خواتین سڑکوں پر نکل رہی ہیں۔ یہاں پر بھی اہم لوگوں کا آنا جانا جاری ہے اور مختلف شعبہائے سے وابستہ افراد یہاں آرہے ہیں اور قومی شہریت (ترمیمی)قانون، این آر سی اور این پی آر کے خلاف اپنی آواز بلند کر رہے ہیں۔ اندور کے علاوہ مدھیہ پردیش کے بھوپال،اجین، دیواس، مندسور کھنڈوا، جبل پور اور دیگر مقامات پر بھی خواتین کے مظاہرے ہورہے ہیں۔