ETV Bharat / state

ایران۔امریکہ تصادم: موجودہ صورت حال اور مستقبل

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ایرانی پاسداران انقلاب کی القدس فورس کے کمانڈر جنرل قاسم سلیمانی کو مار گرانے کے فیصلے نے مشرق وسطی اور موجودہ امریکی سیاست دانوں میں یکسر تبدیلی لائی ہے۔ پیش ہے واشنگٹن ڈی سی سے وابستہ سینئیر صحافی سیما سیروہی کا تجزیہ:

author img

By

Published : Jan 9, 2020, 2:25 PM IST

Updated : Feb 17, 2020, 5:52 PM IST

current situation and future of Iran US confrontation in urdu
ایران۔امریکہ تصادم: موجودہ صورت حال اور مستقبل


امریکی ٹیلی ویژن کے کچھ ماہرین سمیت متعدد ماہرین نے جنگ کے منڈلاتے خطرات کو ایک امکان کے طور پر دیکھا، کیونکہ ماضی کے امریکی صدور میں سے کسی نے بھی ایرانی فوجی سربراہ کے قتل کے سلسلے میں پہل نہیں کی تھی۔ جس کے بعد سے خطے اور اطراف کے ملکوں میں بہت سنگین خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں۔

ٹرمپ نے خطرہ مول لینے کا فیصلہ کیا اور اگلے مہینوں سے معلوم ہوگا کہ ان کا یہ فیصلہ کتنا درست تھا۔ وہ ایران میں جنگ یا حکومت کی تبدیلی کے خواہاں ہیں یا ان کی منشا کچھ اور ہے، یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا- امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے سلیمانی کے قتل کے بعد امریکی موقف کی تائید کرتے ہوئے دہرایا ہے۔

ایران بھی مکمل جنگ نہیں چاہتا ہے کیونکہ وہ امریکہ کے خلاف جانا نہیں چاہتا کیوں کہ اس کے اپنے مسائل ہیں اور جنگ سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ تاہم اس نے سخت انتقام لینے کا وعدہ کیا ہے۔ دو ممالک کے درمیان تیسرے ملک کی مداخلت اور لفظی جنگ (پراکسی جنگ) کی وجہ سے مشرق وسطی میں امریکی فوجیوں کے خلاف انتقامی کارروائی کا اعادہ بڑھ گیا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان گرما گرم بیانات امریکی پابندیوں اور بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے سنگین حقائق کو چھپاتے ہیں۔

جمعہ تین جنوری 2020 کو امریکی ڈرون حملوں کے ذریعے قاسم سلیمانی اور ان کے ساتھیوں کو قتل کیا گیا تھا، جو ایک نرننگ پائنٹ ہے۔

جس کے بعد ایران نے اپنی جوابی کارروائی کے پہلے عمل میں عراق میں موجود امریکی افواج پر چند میزائل داغے تھے۔ امید ہے کہ وہ امریکہ کی طرف سے اور ایران کے ذریعہ غلط فہمیوں کا باعث نہیں بنے گی۔ حملوں اور جوابی حملوں کا موجودہ دور گذشتہ موسم گرما میں ایران کے ایک امریکی ڈرون کو گراتے ہوئے شروع ہوا تھا۔ ٹرمپ نے انتقامی کاروائی کا حکم دیا لیکن آخری لمحے میں اسے کالعدم قرار دے دیا۔

اس سے قبل سعودی عرب کی تیل تنصیبات پر حملہ ہوا تھا، جس کا الزام ایران پر لگایا جارہا تھا۔

ٹرمپ نے عراقی شیعہ ملیشیا کاتب حزب اللہ کے خلاف لڑاکا طیارے بھیجے جو ایران کی پراکسی کے طور پر کام کرتا ہے ، جس میں 25 افراد ہلاک ہوئے۔ اس کے بعد ملیشیا کے رہنما مہدی المہندیس کو سلیمانی کے ہمراہ مارا گیا۔

ایران کے عالمی سطح پر سیاسی و معاشی تعلقات وسیع ہیں۔
ایران کے عالمی سطح پر سیاسی و معاشی تعلقات وسیع ہیں۔

کاتب حزب اللہ پر امریکی حملے نے نئے سال کے موقع پر بغداد میں امریکی سفارت خانے پر حملہ کردیا اور سفارتکاروں کو اندر پھنس لیا۔ مظاہرین نے مرکزی گیٹ توڑ دیا اور باہری علاقے میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ یہ ایک ذلت تھی جس کا جواب ٹرمپ نے سلیمانی کو قتل کرنے کے حکم کے ساتھ دیا۔

اگرچہ اس حکم کا سرکاری جواز امریکی اہلکاروں اور اثاثوں پر مستقبل میں ہونے والے حملوں کو روکنے میں تھا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ امریکی سفارت خانے پر حملے کا جواب تھا۔

ایرانی صدر حسن روحانی ایک بین الاقوامی کانفریس میں
ایرانی صدر حسن روحانی ایک بین الاقوامی کانفریس میں

عراقی پارلیمنٹ نے عراق میں امریکی فوجی موجودگی کے خاتمے کے لئے ایک قرار داد کو ووٹ دیا ہے لیکن سنی اور کرد ارکان نے شرکت نہیں کی۔ کچھ عراقی اور شامی باشندے ان کے ممالک میں اس کی پرتشدد مداخلت کے بعد اس بات سے راحت محسوس کر رہے ہیں کہ سلیمانی کی موت ہوچکی ہے۔

مشرق وسطی کے ماہر مبصر اور اسکالر کم گھٹاس کے مطابق 'سلیمانی نے شام سے لبنان تک فرقہ وارانہ ملیشیا تیار کیا اور گذشتہ دو دہائیوں میں تقریبا ہر علاقائی واقعے کا مرکزی کردار رہا ہے'۔ کہا جاتا ہے کہ وہ فروری 2012 میں اسرائیلی سفارتی کار پر حملے میں بھی تھے جس میں چار افراد زخمی ہوئے تھے۔

نومبر 2019 میں ایران کے ایتان نامی علاقے متعدد علاقوں میں گیس کی قیمتوں میں 200 فیصد اضافے کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج ہوئے، جس کو روکنے کے لئے انٹرنیٹ کو سات دن کے لئے بند کردیا گیا تھا۔اس دوران میڈیا ذرائع کے مطابق درجن سے زیادہ مظاہرین ہلاک ہوگئے۔

اخبار کارنیگی انڈوومنٹ میں ایرانی صحافی ماہر کریم سجاد پور نے دعویٰ کیا ہے کہ 'ایرانی عوام پر سلیمانی کی ہلاکت کے شدید اثرات پڑنے والے ہیں، اس کے باوجود بہت سے ایرانی جلد ہی روز مرہ زندگی کے کاموں میں مصروف ہوجائے گے'۔

عراق میں متعدد امریکی فوجیوں کی ہلاکتوں کے لئے ذمہ دار سمجھے جانے والے جنرل (سلیمانی) کو ہلاک کرنے کے ٹرمپ کے حکم نے متعدد عالمی سیاسی رہنماوں کو الگ الگ خانوں میں تقسیم کردیا ہے۔

برطانیہ کی سابق صدر تھریسامے اور ایرانی صدر حسن روحانی
برطانیہ کی سابق صدر تھریسامے اور ایرانی صدر حسن روحانی

ڈیموکریٹس نے اس بات پر اتفاق کیا کہ سلیمانی کا قتل تشویشناک ہے لیکن انہوں نے اس فیصلے کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ اسے ایران کی طرف سے جنگ کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔

ہاؤس جوڈیشری کمیٹی کے چیئرمین جیری نڈلر نے کہا کہ 'سلیمانی ایک متشدد آرمی تھا جس نے دنیا میں خوفناک تشدد کو فروغ دیا ، لیکن کانگریس نے صدر کو جنگ شروع کرنے کا اختیار نہیں دیا تھا اور ہمیں اس بڑھتی ہوئی جنگی صورت حال کی روک تھام کے لئے کام کرنا چاہئے، جس سے یہ حملہ مشتعل ہوسکتا ہے'۔

سلیمانی کی ہلاکت نے ڈیموکریٹک صدارتی امیدواروں کو بھی درہم برہم کردیا ہے، جب انہیں خارجہ پالیسی کے سخت معاملے پر اپنا ہاتھ کھینچ لینا پڑا۔ سینیٹ (امریکی پارلیمان) کے رکن الزبتھ وارن کا ٹویٹر پر دو جنوری کو سلیمانی کو قاتل کہنے پر طنز کیا گیا تھا ، اور پھر یہ کہا گیا تھا کہ وہ تین دن بعد 'سرکاری و درباری افسر' تھا۔

سابق صدر براک اوباما کے دور میں وزیر دفاع رہے لیون پنیٹا نے حالیہ واقعات کو ٹرمپ کی صدارت کا سب سے بڑا امتحان قرار دیا ہے۔ پچھلے تین برسوں میں ٹرمپ نے امریکہ کے اتحادیوں کا مذاق اڑایا، اپنی مخالفت کو برداشت کیا اور اپنی ہی انٹیلجنس ایجنسیوں کی مذمت کی لیکن اب شاید انہوں نے اپنے ہی حامیوں میں سے کچھ کو بھڑکا دیا ہے جو 'ہمیشہ کی جنگوں' (Long Time War) کے خاتمے کے اپنے وعدے پر یقین رکھتے ہیں۔

ایرانی تہذیب و ثقافت اور غذائیں دنیا بھر میں مشہور ہے
ایرانی تہذیب و ثقافت اور غذائیں دنیا بھر میں مشہور ہے

امریکہ کے ایک کثیرالاشاعت اخبار نے ٹرمپ کی جانب سے سلیمانی کے قتل کو 'ایک طرح سے جوا کھلنے' سے تعبیر کیا ہے۔ بہرحال بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ٹرمپ کے اقدامات سے ایران اپنی پراکسی جنگ پر نظر ثانی کرے گا یا اس کو وسعت دے گا؟

ایرانی صدر حسن روحانی (فائل فوٹو۔ ٹوئٹر)
ایرانی صدر حسن روحانی (فائل فوٹو۔ ٹوئٹر)


امریکی ٹیلی ویژن کے کچھ ماہرین سمیت متعدد ماہرین نے جنگ کے منڈلاتے خطرات کو ایک امکان کے طور پر دیکھا، کیونکہ ماضی کے امریکی صدور میں سے کسی نے بھی ایرانی فوجی سربراہ کے قتل کے سلسلے میں پہل نہیں کی تھی۔ جس کے بعد سے خطے اور اطراف کے ملکوں میں بہت سنگین خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں۔

ٹرمپ نے خطرہ مول لینے کا فیصلہ کیا اور اگلے مہینوں سے معلوم ہوگا کہ ان کا یہ فیصلہ کتنا درست تھا۔ وہ ایران میں جنگ یا حکومت کی تبدیلی کے خواہاں ہیں یا ان کی منشا کچھ اور ہے، یہ آنے والا وقت ہی بتائے گا- امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے سلیمانی کے قتل کے بعد امریکی موقف کی تائید کرتے ہوئے دہرایا ہے۔

ایران بھی مکمل جنگ نہیں چاہتا ہے کیونکہ وہ امریکہ کے خلاف جانا نہیں چاہتا کیوں کہ اس کے اپنے مسائل ہیں اور جنگ سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ تاہم اس نے سخت انتقام لینے کا وعدہ کیا ہے۔ دو ممالک کے درمیان تیسرے ملک کی مداخلت اور لفظی جنگ (پراکسی جنگ) کی وجہ سے مشرق وسطی میں امریکی فوجیوں کے خلاف انتقامی کارروائی کا اعادہ بڑھ گیا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان گرما گرم بیانات امریکی پابندیوں اور بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے سنگین حقائق کو چھپاتے ہیں۔

جمعہ تین جنوری 2020 کو امریکی ڈرون حملوں کے ذریعے قاسم سلیمانی اور ان کے ساتھیوں کو قتل کیا گیا تھا، جو ایک نرننگ پائنٹ ہے۔

جس کے بعد ایران نے اپنی جوابی کارروائی کے پہلے عمل میں عراق میں موجود امریکی افواج پر چند میزائل داغے تھے۔ امید ہے کہ وہ امریکہ کی طرف سے اور ایران کے ذریعہ غلط فہمیوں کا باعث نہیں بنے گی۔ حملوں اور جوابی حملوں کا موجودہ دور گذشتہ موسم گرما میں ایران کے ایک امریکی ڈرون کو گراتے ہوئے شروع ہوا تھا۔ ٹرمپ نے انتقامی کاروائی کا حکم دیا لیکن آخری لمحے میں اسے کالعدم قرار دے دیا۔

اس سے قبل سعودی عرب کی تیل تنصیبات پر حملہ ہوا تھا، جس کا الزام ایران پر لگایا جارہا تھا۔

ٹرمپ نے عراقی شیعہ ملیشیا کاتب حزب اللہ کے خلاف لڑاکا طیارے بھیجے جو ایران کی پراکسی کے طور پر کام کرتا ہے ، جس میں 25 افراد ہلاک ہوئے۔ اس کے بعد ملیشیا کے رہنما مہدی المہندیس کو سلیمانی کے ہمراہ مارا گیا۔

ایران کے عالمی سطح پر سیاسی و معاشی تعلقات وسیع ہیں۔
ایران کے عالمی سطح پر سیاسی و معاشی تعلقات وسیع ہیں۔

کاتب حزب اللہ پر امریکی حملے نے نئے سال کے موقع پر بغداد میں امریکی سفارت خانے پر حملہ کردیا اور سفارتکاروں کو اندر پھنس لیا۔ مظاہرین نے مرکزی گیٹ توڑ دیا اور باہری علاقے میں داخل ہونے میں کامیاب ہوگئے۔ یہ ایک ذلت تھی جس کا جواب ٹرمپ نے سلیمانی کو قتل کرنے کے حکم کے ساتھ دیا۔

اگرچہ اس حکم کا سرکاری جواز امریکی اہلکاروں اور اثاثوں پر مستقبل میں ہونے والے حملوں کو روکنے میں تھا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ امریکی سفارت خانے پر حملے کا جواب تھا۔

ایرانی صدر حسن روحانی ایک بین الاقوامی کانفریس میں
ایرانی صدر حسن روحانی ایک بین الاقوامی کانفریس میں

عراقی پارلیمنٹ نے عراق میں امریکی فوجی موجودگی کے خاتمے کے لئے ایک قرار داد کو ووٹ دیا ہے لیکن سنی اور کرد ارکان نے شرکت نہیں کی۔ کچھ عراقی اور شامی باشندے ان کے ممالک میں اس کی پرتشدد مداخلت کے بعد اس بات سے راحت محسوس کر رہے ہیں کہ سلیمانی کی موت ہوچکی ہے۔

مشرق وسطی کے ماہر مبصر اور اسکالر کم گھٹاس کے مطابق 'سلیمانی نے شام سے لبنان تک فرقہ وارانہ ملیشیا تیار کیا اور گذشتہ دو دہائیوں میں تقریبا ہر علاقائی واقعے کا مرکزی کردار رہا ہے'۔ کہا جاتا ہے کہ وہ فروری 2012 میں اسرائیلی سفارتی کار پر حملے میں بھی تھے جس میں چار افراد زخمی ہوئے تھے۔

نومبر 2019 میں ایران کے ایتان نامی علاقے متعدد علاقوں میں گیس کی قیمتوں میں 200 فیصد اضافے کے خلاف بڑے پیمانے پر احتجاج ہوئے، جس کو روکنے کے لئے انٹرنیٹ کو سات دن کے لئے بند کردیا گیا تھا۔اس دوران میڈیا ذرائع کے مطابق درجن سے زیادہ مظاہرین ہلاک ہوگئے۔

اخبار کارنیگی انڈوومنٹ میں ایرانی صحافی ماہر کریم سجاد پور نے دعویٰ کیا ہے کہ 'ایرانی عوام پر سلیمانی کی ہلاکت کے شدید اثرات پڑنے والے ہیں، اس کے باوجود بہت سے ایرانی جلد ہی روز مرہ زندگی کے کاموں میں مصروف ہوجائے گے'۔

عراق میں متعدد امریکی فوجیوں کی ہلاکتوں کے لئے ذمہ دار سمجھے جانے والے جنرل (سلیمانی) کو ہلاک کرنے کے ٹرمپ کے حکم نے متعدد عالمی سیاسی رہنماوں کو الگ الگ خانوں میں تقسیم کردیا ہے۔

برطانیہ کی سابق صدر تھریسامے اور ایرانی صدر حسن روحانی
برطانیہ کی سابق صدر تھریسامے اور ایرانی صدر حسن روحانی

ڈیموکریٹس نے اس بات پر اتفاق کیا کہ سلیمانی کا قتل تشویشناک ہے لیکن انہوں نے اس فیصلے کی قانونی حیثیت پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا ہے کہ اسے ایران کی طرف سے جنگ کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔

ہاؤس جوڈیشری کمیٹی کے چیئرمین جیری نڈلر نے کہا کہ 'سلیمانی ایک متشدد آرمی تھا جس نے دنیا میں خوفناک تشدد کو فروغ دیا ، لیکن کانگریس نے صدر کو جنگ شروع کرنے کا اختیار نہیں دیا تھا اور ہمیں اس بڑھتی ہوئی جنگی صورت حال کی روک تھام کے لئے کام کرنا چاہئے، جس سے یہ حملہ مشتعل ہوسکتا ہے'۔

سلیمانی کی ہلاکت نے ڈیموکریٹک صدارتی امیدواروں کو بھی درہم برہم کردیا ہے، جب انہیں خارجہ پالیسی کے سخت معاملے پر اپنا ہاتھ کھینچ لینا پڑا۔ سینیٹ (امریکی پارلیمان) کے رکن الزبتھ وارن کا ٹویٹر پر دو جنوری کو سلیمانی کو قاتل کہنے پر طنز کیا گیا تھا ، اور پھر یہ کہا گیا تھا کہ وہ تین دن بعد 'سرکاری و درباری افسر' تھا۔

سابق صدر براک اوباما کے دور میں وزیر دفاع رہے لیون پنیٹا نے حالیہ واقعات کو ٹرمپ کی صدارت کا سب سے بڑا امتحان قرار دیا ہے۔ پچھلے تین برسوں میں ٹرمپ نے امریکہ کے اتحادیوں کا مذاق اڑایا، اپنی مخالفت کو برداشت کیا اور اپنی ہی انٹیلجنس ایجنسیوں کی مذمت کی لیکن اب شاید انہوں نے اپنے ہی حامیوں میں سے کچھ کو بھڑکا دیا ہے جو 'ہمیشہ کی جنگوں' (Long Time War) کے خاتمے کے اپنے وعدے پر یقین رکھتے ہیں۔

ایرانی تہذیب و ثقافت اور غذائیں دنیا بھر میں مشہور ہے
ایرانی تہذیب و ثقافت اور غذائیں دنیا بھر میں مشہور ہے

امریکہ کے ایک کثیرالاشاعت اخبار نے ٹرمپ کی جانب سے سلیمانی کے قتل کو 'ایک طرح سے جوا کھلنے' سے تعبیر کیا ہے۔ بہرحال بڑا سوال یہ ہے کہ کیا ٹرمپ کے اقدامات سے ایران اپنی پراکسی جنگ پر نظر ثانی کرے گا یا اس کو وسعت دے گا؟

ایرانی صدر حسن روحانی (فائل فوٹو۔ ٹوئٹر)
ایرانی صدر حسن روحانی (فائل فوٹو۔ ٹوئٹر)
Intro:Body:Conclusion:
Last Updated : Feb 17, 2020, 5:52 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.