ETV Bharat / state

Article 370 hearing سیاسی فائدے کے لیے آئین کے ساتھ جوڑ توڑ نہیں کیا جاسکتا، دفعہ 370 کی سماعت کے تیسرے روز کپل سبل کی بحث - Kapil Sibal on Article 370 hearing

اپنے دلائل کے پیش کرتے ہوئے سبل نے عدالت سے سوال کیاکہ کیا مناسب مشاورت کے بغیر جموں و کشمیر کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنانے سے پہلے لوگوں کی مرضی کو مدنظر رکھا گیا تھا۔ سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل نے سپریم کورٹ میں آئین کے آرٹیکل 370 کی منسوخی کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر جاری سماعت کے تیسرے دن اس بات پر زور دیا کہ سیاسی فائدے کے لیے آئین کے ساتھ جوڑ توڑ نہیں کیا جاسکتا۔ Constitution cannot be manipulated for political gain, Kapil Sibal's discussion on third day of Article 370 hearing

Etv Bharat
Etv Bharat
author img

By

Published : Aug 8, 2023, 10:54 PM IST

سپریم کورٹ نے آج آرٹیکل 370 پر جاری سماعت میں یہ تبصرہ کیا کہ ’آرٹیکل 370 میں خود اس شرط کی وضاحت کی گئی جس کے تحت اسے منسوخ کیا جاسکتا ہے اور دفعہ میں فراہم کردہ طریقہ کار سے اسے ختم کیا جاسکتا ہے۔ چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی میں پانچ ججوں کی آئینی بنچ جس میں جسٹس ایس کے کول، سنجیو کھنہ، بی آر گاوائی اور سوریہ کانت شامل ہیں نے آج بھی آرٹیکل 370 کی منسوخی کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت کی، جس کے ذریعہ جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ حاصل تھا۔

اپنے دلائل پیش کرتے ہوئے سبل نے عدالت سے سوال کیاکہ کیا مناسب مشاورت کے بغیر جموں و کشمیر کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنانے سے پہلے لوگوں کی مرضی کو مدنظر رکھا گیا تھا۔ سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل نے سپریم کورٹ میں آئین کے آرٹیکل 370 کی منسوخی کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر جاری سماعت کے تیسرے دن اس بات پر زور دیا کہ سیاسی فائدے کے لیے آئین کے ساتھ جوڑ توڑ نہیں کیا جاسکتا۔

سبل نے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی میں پانچ ججوں کی آئینی بنچ سے کہاکہ ’ہم ایک ایسی صورتحال میں کھڑے ہیں، جب کہ آئین ایک سیاسی دستاویز ہے، لیکن اس کی دفعات کو سیاسی مقاصد کے لیے نہیں توڑا جاسکتا۔ آئین کی تشریح کریں، یہ ایک سیاسی دستاویز ہے، لیکن آپ اس کا سیاسی طور پر غلط استعمال کر سکتے ہیں۔"

تیسرے دن کی بحث کے دوران سبل نے شیخ محمد عبداللہ کی ایک تقریر کا حوالہ دیا، جو ریاست جموں و کشمیر کے پہلے منتخب وزیر اعلیٰ تھے۔ چیف جسٹس چندر چوڑ نے 1951 میں شیخ محمد عبداللہ کے وژن کو تسلیم کیا اور ستائش کی۔ سبل اس کیس میں نیشنل کانفرنس کے ایم پی محمد اکبر لون اور حسنین مسعودی کی نمائندگی کررہے ہیں۔ انہوں نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہاکہ ’ایک یکطرفہ ایگزیکٹو فیصلہ آئینی طور پر آرٹیکل 370 میں شامل شرائط کو تبدیل نہیں کرسکتا۔ بھارتی یونین کا ایک ایگزیکٹو ایکٹ یکطرفہ طور پر بھارت کے آئین کی دفعات کو تبدیل نہیں کر سکتا جیسا کہ ریاست جموں و کشمیر پر لاگو ہوتا ہے۔ بالآخر، یہ ایک سیاسی فیصلہ تھا جو موجودہ حالات کے تناظر میں لیا گیا تھا، کیا یہ ٹھیک ہے‘؟ انہوں نے کہا کہ ’یہ آئین کے ساتھ دھوکہ ہے‘۔

چیف جسٹس چندرچوڑ نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ بھارت جیسی جمہوریت میں عوام کی رائے حاصل کرنا قائم اداروں کے ذریعے ہونا چاہیے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ بھارت میں آئین کے اندر ریفرنڈم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور عوام کی مرضی کے کسی بھی ذریعہ کا اظہار آئینی معیارات کے اندر ہونا چاہیے۔ سبل نے یہ مسئلہ اٹھایا کہ آرٹیکل 370(3) خود ایسی شرائط فراہم کرتا ہے جن کے تحت منسوخی ہوسکتی ہے، لیکن یہ آئین ساز اسمبلی کی سفارش پر ہے۔

سبل نے زور دے کر کہا کہ اس کو منسوخ کرنے کی ضرورت نہیں تھی، کیونکہ زیادہ تر بھارتی قوانین جموں و کشمیر میں پہلے ہی لاگو ہیں، سوائے زمینی قوانین اور ذاتی قوانین کے۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ منسوخی کا مقصد ایک سیاسی پیغام دینا تھا کہ آرٹیکل 370 کو ختم کر دیا گیا ہے۔ اس کا جواب دیتے ہوئے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے واضح کیا کہ اب جموں و کشمیر کے لوگوں پر 1200 قوانین لاگو ہیں اور ان کے لیے بہت سی فلاحی اسکیمیں بھی دستیاب ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: Boycott of Muslims in Gurugram گروگرام میں مسلمانوں کے بائیکاٹ کی اپیل کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی داخل

سبل نے سوال کیا کہ کیا مناسب مشاورت کے بغیر ریاست کو مرکز کے زیرانتظام علاقہ بنانے سے پہلے عوام کی مرضی کو مدنظر رکھا گیا تھا۔ انہوں نے "اکثریتی طاقت" کے استعمال سے رونما ہونے والی ایسی اہم تبدیلی پر آئینی پیرامیٹرز کو لاگو کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ سبل نے عدالت کو خاموش نہ رہنے کی گذارش کی اور کہا کہ اس کے اثرات تباہ کن ہوں گے۔ انہوں نے اسے بھارت کے مستقبل کے لیے ایک تاریخی لمحہ قرار دیا اور امید ظاہر کی کہ عدالت خاموش نہیں رہے گی۔

واضح رہے کہ اس معاملہ پر سماعت بدھ کو بھی جاری رہے گی اور کپل سبل اپنی بحث جاری رکھیں گے۔

سپریم کورٹ نے آج آرٹیکل 370 پر جاری سماعت میں یہ تبصرہ کیا کہ ’آرٹیکل 370 میں خود اس شرط کی وضاحت کی گئی جس کے تحت اسے منسوخ کیا جاسکتا ہے اور دفعہ میں فراہم کردہ طریقہ کار سے اسے ختم کیا جاسکتا ہے۔ چیف جسٹس آف انڈیا ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی میں پانچ ججوں کی آئینی بنچ جس میں جسٹس ایس کے کول، سنجیو کھنہ، بی آر گاوائی اور سوریہ کانت شامل ہیں نے آج بھی آرٹیکل 370 کی منسوخی کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت کی، جس کے ذریعہ جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ حاصل تھا۔

اپنے دلائل پیش کرتے ہوئے سبل نے عدالت سے سوال کیاکہ کیا مناسب مشاورت کے بغیر جموں و کشمیر کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ بنانے سے پہلے لوگوں کی مرضی کو مدنظر رکھا گیا تھا۔ سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل نے سپریم کورٹ میں آئین کے آرٹیکل 370 کی منسوخی کو چیلنج کرنے والی درخواستوں پر جاری سماعت کے تیسرے دن اس بات پر زور دیا کہ سیاسی فائدے کے لیے آئین کے ساتھ جوڑ توڑ نہیں کیا جاسکتا۔

سبل نے چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی میں پانچ ججوں کی آئینی بنچ سے کہاکہ ’ہم ایک ایسی صورتحال میں کھڑے ہیں، جب کہ آئین ایک سیاسی دستاویز ہے، لیکن اس کی دفعات کو سیاسی مقاصد کے لیے نہیں توڑا جاسکتا۔ آئین کی تشریح کریں، یہ ایک سیاسی دستاویز ہے، لیکن آپ اس کا سیاسی طور پر غلط استعمال کر سکتے ہیں۔"

تیسرے دن کی بحث کے دوران سبل نے شیخ محمد عبداللہ کی ایک تقریر کا حوالہ دیا، جو ریاست جموں و کشمیر کے پہلے منتخب وزیر اعلیٰ تھے۔ چیف جسٹس چندر چوڑ نے 1951 میں شیخ محمد عبداللہ کے وژن کو تسلیم کیا اور ستائش کی۔ سبل اس کیس میں نیشنل کانفرنس کے ایم پی محمد اکبر لون اور حسنین مسعودی کی نمائندگی کررہے ہیں۔ انہوں نے اپنے دلائل جاری رکھتے ہوئے کہاکہ ’ایک یکطرفہ ایگزیکٹو فیصلہ آئینی طور پر آرٹیکل 370 میں شامل شرائط کو تبدیل نہیں کرسکتا۔ بھارتی یونین کا ایک ایگزیکٹو ایکٹ یکطرفہ طور پر بھارت کے آئین کی دفعات کو تبدیل نہیں کر سکتا جیسا کہ ریاست جموں و کشمیر پر لاگو ہوتا ہے۔ بالآخر، یہ ایک سیاسی فیصلہ تھا جو موجودہ حالات کے تناظر میں لیا گیا تھا، کیا یہ ٹھیک ہے‘؟ انہوں نے کہا کہ ’یہ آئین کے ساتھ دھوکہ ہے‘۔

چیف جسٹس چندرچوڑ نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ بھارت جیسی جمہوریت میں عوام کی رائے حاصل کرنا قائم اداروں کے ذریعے ہونا چاہیے۔ انہوں نے اس بات پر زور دیا کہ بھارت میں آئین کے اندر ریفرنڈم کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور عوام کی مرضی کے کسی بھی ذریعہ کا اظہار آئینی معیارات کے اندر ہونا چاہیے۔ سبل نے یہ مسئلہ اٹھایا کہ آرٹیکل 370(3) خود ایسی شرائط فراہم کرتا ہے جن کے تحت منسوخی ہوسکتی ہے، لیکن یہ آئین ساز اسمبلی کی سفارش پر ہے۔

سبل نے زور دے کر کہا کہ اس کو منسوخ کرنے کی ضرورت نہیں تھی، کیونکہ زیادہ تر بھارتی قوانین جموں و کشمیر میں پہلے ہی لاگو ہیں، سوائے زمینی قوانین اور ذاتی قوانین کے۔ انہوں نے تجویز پیش کی کہ منسوخی کا مقصد ایک سیاسی پیغام دینا تھا کہ آرٹیکل 370 کو ختم کر دیا گیا ہے۔ اس کا جواب دیتے ہوئے سالیسٹر جنرل تشار مہتا نے واضح کیا کہ اب جموں و کشمیر کے لوگوں پر 1200 قوانین لاگو ہیں اور ان کے لیے بہت سی فلاحی اسکیمیں بھی دستیاب ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: Boycott of Muslims in Gurugram گروگرام میں مسلمانوں کے بائیکاٹ کی اپیل کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضی داخل

سبل نے سوال کیا کہ کیا مناسب مشاورت کے بغیر ریاست کو مرکز کے زیرانتظام علاقہ بنانے سے پہلے عوام کی مرضی کو مدنظر رکھا گیا تھا۔ انہوں نے "اکثریتی طاقت" کے استعمال سے رونما ہونے والی ایسی اہم تبدیلی پر آئینی پیرامیٹرز کو لاگو کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔ سبل نے عدالت کو خاموش نہ رہنے کی گذارش کی اور کہا کہ اس کے اثرات تباہ کن ہوں گے۔ انہوں نے اسے بھارت کے مستقبل کے لیے ایک تاریخی لمحہ قرار دیا اور امید ظاہر کی کہ عدالت خاموش نہیں رہے گی۔

واضح رہے کہ اس معاملہ پر سماعت بدھ کو بھی جاری رہے گی اور کپل سبل اپنی بحث جاری رکھیں گے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2025 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.