انہوں نے کہا کہ 'عوامی سطح پر یہ بات ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ الیکشن کمیشن نے جانب داری سے کام لیا اور انتخابی عمل میں رخنہ پیدا کیا۔'
پروفیسر سوز نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ 'نریندر مودی کا دو بارہ وزیراعظم منتخب ہونا کسی کے لیے حیرت کی بات نہیں ہے مگر غور کرنے کی بات یہ ہے کہ دنیا کی رائے عامہ مودی سے خوش کیوں نہیں ہے؟ عوامی سطح پر یہ بات ایک طے شدہ حقیقت ہے کہ الیکشن کمیشن نے جانب داری سے کام لیا اور انتخابی عمل میں رخنہ پیدا کیا !۔'
انہوں نے کہا کہ 'نریندر مودی جی کو اپنے حق میں یہ سوچنا چاہیے کہ عالمی رائے عامہ اس کے ساتھ کیوں نہیں ہے جو یہ سمجھتی ہے کہ مودی نے بھارت کی سیاست کو ایسے تقسیم کیا ہے کہ گویا اس طرح کی سیاست آزاد بھارت میں پروان ہی نہیں چڑھی تھی'۔
پروفیسر سوز نے کہا کہ 'ابھی باوقار میگزین ٹائم نے مودی کو بھارت کا سب سے بڑا تقسیم کار یعنی سماج کو بانٹنے والا بتا دیا اور گارجین نے اس لیے ملامت کی کہ مودی نے مسلمانوں کے ساتھ ایسا سلوک کیا کہ گویا وہ اس ملک میں دوسرے درجے کے شہری ہوں!۔'
انہوں نے کہا کہ 'مجھ جیسے بے شمار لوگ یہ پوچھتے ہیں کہ مودی کے پہلے پانچ برسوں میں مودی جی نے کسی بھی معصوم انسان کو پیٹ پیٹ کرکے قتل کرنے پر منہ نہیں کھولا۔ اب مودی جی کا دوسرا دور شروع ہو گیا تو کل ہی ایک معصوم جوڑے کی راستے میں خوب پٹائی کی گئی جس پر پہلے ہی کی طرح ملک کا وزیر اعظم خاموش تماشائی بنا رہا!۔'
پروفیسر سوز نے کہا کہ 'یہ نہایت ہی تشویشناک بات ہے کہ اس قتل و غارت کے ذمہ دار گئو رکشک غنڈوں کو کبھی بھی قانون کے سامنے لانے کی کوشش نہیں کی گئی، اسی لیے یہ سلسلہ برابر جاری ہے۔'
انہوں نے کہا کہ 'کیا ملک کے وزیراعظم کو ملک کی مظلوم اقلیت کے ساتھ یہ ظلم و جبر خاموش تماشائی کی طرح دیکھنا چاہیے؟۔'