دہرادون کے ساکن امر دُھنندہ کے پاس پُرانی چیزوں کا ایک اچھا کلیکشن ہے، ان کے پاس سب پہلے بنے کیمرے میں سے ایک کیمرہ 'جارج' بھی موجود ہے۔
اس کے علاوہ پہلی جنگِ عظیم میں نیلام کی ہوئی ٹیبل بھی ان کے کلیکشن میں موجود ہے۔ اس کے ساتھ ہی جن چیزوں کو ہم بے کار اور خراب کہہ کر پھینک دیتے ہیں، انہی چیزوں سے امر دُھنندہ نے اپنے گھر کی خوبصورتی میں بھی اضافہ کیا ہے۔
دہرادون کے رہنے والے امر دُھنندہ ایک بزنس مین ہیں جو اپنے خاص مشغلے کی وجہ سے جانے جاتے ہیں ہے اور پرانی چیزوں کو جمع کرنے کے لیے وہ نہ صرف بھارت کی مختلف ریاستوں بلکہ بیرون ممالک جانے سے بھی پیچھے نہیں ہٹتے ہیں۔
امر دُھنندہ بے کار اشیاء کو اتنی خوبصورتی سے سجاتے ہیں کہ دیکھنے والے ان کے فن کے مرید ہو جاتے ہیں اور داد دیے بغیر نہیں رہ پاتے۔
امر کے اس شوق کی ابتدا پرانے کیمرے جمع کرنے سے ہوئی۔ انہوں نے بھارت کی مختلف ریاستوں میں ایسے کیمروں کی تلاش کی جو لوگوں نے کبھی نہیں دیکھا اور آج ان کے پاس ایسے 250 سے زیادہ کیمرے ہیں۔
امر دُھنندہ کا کہنا ہے کہ ان کیمروں کے لیے انہوں نے ملک کی بہت سی ریاستوں کا سفر کیا ہے اور چند روپوں میں ملنے والے ان کیمروں کی قیمت آج لاکھوں میں ہے۔
انہوں نے کہا کہ 'ان کا شوق بہت پرانا ہے اور اس شوق کو پورا کرنے کے لیے انہوں نے اپنے گھر میں ایک الگ جگہ بنائی ہے۔'
تاہم امر دُھنندہ کا کہنا ہے کہ 'انہیں فوٹو گرافی میں کوئی دلچسپی نہیں ہے اور وہ آئندہ نسلوں کو یہ تحفہ دینا چاہتے ہیں۔'
ایسے کیمرے جو آج تک نہیں دیکھے گئے:
امر دُھنند کے پاس دنیا کے سب سے پہلے کیمروں میں سے ایک 'جارج' تو ہے ہی، اسی کے ساتھ تقریباً 100 سال پرانے میکس، جیروجا، میسڈ، پِنہول اور اے کیمرہ بھی موجود ہے۔
امر دُھنندہ کے پاس 1888 سے لے کر کئی ایسے پرانے پرانے کیمروں کا کلیکشن ہے جو اب کہیں دیکھنے کو نہیں ملتا جبکہ پہلی جنگِ عظیم کا ٹیبل بھی امر دُھنند کے کلیکشن میں موجود ہے۔ اس ٹیبل کو پہلے برما میں نیلام کیا گیا تھا جس کے بعد امر نے یہ ٹیبل تقریباً 400 روپے میں خریدا تھا اور آج اس ٹیبل کی قیمت محکمۂ آثارِ قدیمہ کے مطابق 20 لاکھ روپے ہے۔
ہاتھ سے لکھی ہوئی رامائن:
امر دُھنندہ کے پاس بھی ہاتھ سے لکھی ہوئی رامائن ہے۔ جب انہیں معلوم ہوا کہ بیرون ملک کسی کے پاس ہاتھ سے لکھی ہوئی رامائن ہے تب انہوں نے اس شخص سے رابطہ کیا جس کے پاس یہ رامائن تھی اور آج ان کے پاس یہ قیمتی ورثہ موجود ہے۔
امر دُھنند کے کلیکشن میں تقریباً 120 سال قبل لوگوں کو آگاہ کرنے کے لیے بڑے پردے پر چلائے جانے والے پیپر پرنٹ بھی موجود ہے جس میں رامائن سے لے کر دوسری کہانیاں بھی ہیں۔ اُس وقت یہ کاغذی پرنٹ لوگوں کی تفریح کا واحد ذریعہ تھا۔
ماحولیاتی تحفظ کا انوکھا پیغام:
صرف یہی نہیں بلکہ امر دُھنندہ اپنے شوق کو پورا کرتے ہوئے ماحولیاتی تحفظ کا پیغام بھی دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ لوگ، ہر قسم کی پلاسٹک کی بوتلیں، پالیتھین اور دیگر غلاظت سڑک پر یا کوڑے دان میں پھینک دیتے ہیں لیکن انہیں اندازہ نہیں ہوتا ہے کہ یہ ہمارے ماحول کو کتنا نقصان پہنچاتے ہیں۔ اس بات کو دھیان میں رکھتے ہوئے امر نے ان تمام سامان کو صحیح طریقے سے استعمال کرنے کے لیے یہ انوکھا طریقہ اختیار کیا ہے۔
امر دُھنندہ کے باغ میں ٹوتھ برش سے لے کر ہارپک بوتلوں تک کا بہت خوبصورتی سے استعمال کیا گیا ہے۔ آپ یہ اندازہ بھی نہیں لگا سکتے کہ ان بے کار اشیاء کو اس طرح بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ امر نے اپنے باغ میں مختلف قسم کے پودوں کو چمڑے کے خراب جوتوں اور کپڑے کے جوتوں میں ایک نئی شکل دینے کا کام کیا ہے۔
صرف یہی نہیں جن خراب کپڑوں کو ہم پھٹا پرانا سمجھ کر پھینک دیتے ہیں ان کپڑوں کو بھی امر دُھنندہ نے اپنے باغ میں لگے پودوں کو اس طرح سے پہنا رکھا ہے جیسے کوئی مرد یا عورت آپ کے سامنے بیٹھی ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ گاڑی کے ٹائرز سے مچھلی بنانا، دوسری طرح کی شکلیں دینا یہ سبھی کام امر، گذشتہ کئی برسوں سے اپنے باغ میں کرتے آرہے ہیں۔
امر دُھنندہ نے کہا کہ 'اگر ہم درخت، پودے اور اچھی آب و ہوا چاہتے ہیں تو ہمیں ان سب چیزوں کو اپنی زندگی میں شامل کرنا ہوگا جس سامان کو ہم خراب سمجھ کر اِدھر اُدھر پھینک دیتے ہیں۔ اس سے ماحول کو کافی نقصان ہوتا ہے۔ ہر شخص کو خراب سامان کو اچھے سے استعمال میں لانا چاہیے تاکہ ماحول کو کم نقصان ہو۔'