چینی صدر اور چینی کمیونسٹ پارٹی (سی سی پی) کے جنرل سکریٹری زی جن پنگ نے نئی دہلی کی طرف اپنی 'جارحانہ' خارجہ پالیسی میں تیزی لائی ہے۔
اگرچہ انھوں نے متعدد بار وزیر اعظم نریندر مودی سے ملاقات کی اور بیجنگ اور نئی دہلی تناؤ کو کم کرنے کے لئے ڈیزائن کیے گئے اعتماد سازی میں متفق بھی دیکھائی دئیے، لیکن حالیہ دور میں کشادگی بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔
چین کے صدر زی جن پنگ کی سربراہی میں بھارت ۔ چین سرحد لائن آف ایکچولوئل کنٹرول کو واضح کرنے کی کوششوں میں مزید اضافہ کیا گیا ہے
بھارت اور چین کی فوجیں گذشتہ سات ہفتوں سے مشرقی لداخ کے متعدد مقامات پر ایک تلخ کشمکش میں مبتلا ہیں۔ اسی سلسلے میں 15 جون کو وادی گلوان میں آپسی تصادم میں 20 بھارتی فوجیوں کے ہلاک ہونے کے بعد کشیدگی بڑھ گئی۔
ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ 'بیجنگ اور نئی دہلی نے متعدد معاہدوں پر دستخط کیے ہیں اور اپنی سرحد کو مستحکم کرنے کے لئے اعتماد سازی کے اقدامات کے لئے پرعزم ہیں، لیکن چین نے دیرپا امن کو روکنے اور ایل اے سی کو واضح کرنے کی کوششوں کی مخالفت کی ہے'۔
خارجہ امور کی ٹیم کے پالیسی تجزیہ کار ول گرین کے مصنف نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ 'چینی حکومت، امریکہ اور اس کے اتحادیوں اور شراکت داروں کے ساتھ بھارت کے بڑھتے ہوئے تعلقات سے خوفزدہ ہے'۔
انھوں نے کہا ہے کہ 'تازہ ترین سرحدی تصادم ایک وسیع تر پس منظر کا حصہ ہے جس میں بیجنگ نئی دہلی کو واشنگٹن کے ساتھ صف بندی کے خلاف متنبہ کرنے کی کوشش کرتا ہے'۔
چین کی پیپلز لبریشن آرمی کے ریکارڈ کے مطابق 2013 سے قبل آخری سرحدی تصادم سنہ 1987 میں ہوا تھا۔
اس ریکارڈ کے مطابق اس سے قبل سنہ 1950 اور 1960 کی دہائی خاصی تناؤ کا دور تھی۔ جس کا اختتام 1962 میں ہوا۔ اس کے نتیجے میں دونوں اطراف کے ہزاروں فوجی ہلاک ہوگئے۔