سپریم کورٹ کے وکیل احتشام ہاشمی نے شہریت ترمیمی قانون کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے اور درخواست کی ہے کہ اسے غیر قانونی قرار دیا جائے۔
اس قانون میں بنگلہ دیش افغانستان اور پاکستان کی اچھا اقلیتی طبقہ جن میں ہندو، سکھ عیسائی، پارسی، جین، بودھ مذہب سے تعلق رکھنے والے افراد کو بھارتی شہریت دینے کی تجویز ہے۔
یہ بل لوک سبھا کے بعد راجیہ سبھا میں حکمران جماعت کے ذریعہ پاس کرانے میں کامیاب ہوا اور بعد میں صدر جمہوریہ کے دستخط کے بعد یہ قانون بن گیا۔
بی جے پی کے مطابق یہ قانون ان لوگوں کے لیے ہے جنہیں مذہب کی بنیاد پر ظلم و ستم کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے، وہی اس قانون کی مخالفین کا کہنا ہے کہ قانون غیر آئینی ہے اور ملک کی سیکولر شبیہ کو بدلنے والے ایجنڈے کا حصہ ہے۔
پارلیمنٹ میں حزب اختلاف کی جماعتوں اور سیاستدانوں نے بھی انہی خدشات کا اظہار کیا تھا سپریم کورٹ میں اپنی درخواست میں ایڈوکیٹ احتشام ہاشمی نے کہا ہے کہ یہ قانون بھارتی آئین کے خلاف ہے، یہ بنیادی حقوق کے خلاف ہے۔
اس بل کے متعارف کروائے جانے کے بعد شمال مشرقی ریاست آسام میں بڑے پیمانے پر مظاہرے بھی ہوئے ہیں جس کے بعد گوہاٹی میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے اور دس اضلاع میں انٹرنیٹ بھی بند ہے۔ اس کے علاوہ ریاست میں ٹرینوں کی آمدورفت بھی معطل ہے۔ پارلیمنٹ میں منظور ہونے کے بعد ملک کی مخلتف ریاستوں میں سخت مظاہرے ہو رہے ہیں۔