دارالحکومت دہلی کے براڑی گراؤنڈ میں میر فیصل، محمد مہربان، شاہد تانترے اور ارباب علی تقریب کا کوریج کر رہے تھے کہ ان کے کیمرے چھین لیے گئے اور ان کی فوٹیج کو لوگوں نے زبردستی ڈیلیٹ کر دیا۔ Attack on Muslim Journalists۔ ہجوم کی طرف سے ان پر فرقہ وارانہ نعرے بھی لگائے گئے۔ ہندوتوا کے ہجوم کے حملے کے بعد، پنڈال میں تعینات پی سی آر وین میں موجود دہلی پولیس کے افسران نے پانچ صحافیوں کو حراست میں لے لیا، جن میں سے چار مسلم صحافی شامل تھے۔ Attack on Muslim Journalists
ان چار صحافیوں کے ساتھ دی وائر سے میگھناد بوس کو بھی حراست میں لیا گیا تھا۔ انہیں مکھرجی نگر پولیس اسٹیشن لے جایا گیا۔میر فیصل نے ایک ٹویٹ میں کہا کہ مجھے اور محمد مہربان کو ہندو ہجوم نے ہماری مسلم شناخت کی وجہ سے مارا پیٹا۔ نئی دہلی کے براڑی گراؤنڈ میں ہندو مہاپنچایت میں مجھ پر فرقہ وارانہ نعرے لگائے گئے۔ ہم وہاں تقریب کی کوریج کے لیے گئے تھے۔ ہمیں جہادی کہا گیا اور مسلمان ہونے کی وجہ سے حملہ کیا گیا۔'
ڈی سی پی نارتھ ویسٹ نے صحافیوں کو حراست میں لینے کے دعوؤں کی وضاحت کرتے ہوئے ایک ٹویٹ میں کہا، "کچھ رپورٹرز، اپنی مرضی سے، اس بھیڑ سے بچنے کے لیے، پی سی آر وین میں بیٹھ گئے۔ مقام اور سیکورٹی وجوہات کی بنا پر انہیں پولیس اسٹیشن لے جایا گیا۔ کسی کو حراست میں نہیں لیا گیا۔ ای ٹی وی بھارت نے مکھرجی نگر پولیس سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن بات نہیں ہو پائی۔
قابل ذکر ہے کہ اس متنازعہ تقریب کو پہلے دہلی پولیس نے اجازت دینے سے انکار کر دیا تھا۔ ہندو مہاپنچایت کی میزبانی وہی تنظیم کر رہی ہے جس نے گزشتہ سال جنتر منتر میں اسی طرح کی ایک تقریب منعقد کی تھی جس میں مسلمانوں کی نسل کشی کے نعرے لگائے گئے تھے۔ اس تقریب میں داسنا دیوی مندر کے ہیڈ پجاری یتی نرسنگھ نند سمیت دیگر نے شرکت کی۔