دہلی: جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ عربی میں ایک عجیب و غریب واقعہ پیش آیا ہے۔ پی ایچ ڈی میں داخلہ کے لئے گزشتہ ماہ 18 اپریل کو ہوئے انٹریو میں ایک امیدوار نے ریسرچ پروپوزل پیش کیا، جس کا مرکزی موضوع طوائف اور فاحشہ خواتین پر اردو اور عربی کے ناولوں کے درمیان تقابلی موازنہ تھا۔ امیدوار نے جیسے ہی اپنا موضوع پیش کیا ویسے ہی کچھ پروفیسر شدید ناراض ہوگئے۔
امیدوار سے یہ پوچھنے لگے کہ اس غیر اخلاقی موضوع کے انتخاب کی وجہ کیا ہے؟ کیا یہ ناشائستہ موضوع مناسب ہے؟ ایسا لفظ جسے سننا بھی گوارا نہیں کیا جاسکتا، اس پر ریسرچ کیسے کیا جاسکتا ہے اور ہم اس کی اجازت کیوں دیں گے؟ امیدوار نے ان سوالات کا جواب دینے کی کوشش کی اور اپنے موضوع کے دفاع میں سماج کی کڑوی سچائیوں کا حوالہ بھی دیا، جس پر پروفیسر عبدالماجد قاضی اور پروفیسر نسیم اختر اور ان کے ہم مزاج پروفیسرز نے اسلام اور مذہب کی بحث شروع کردی اور امیدوار کو سخت سست کہا۔
یہ معاملہ تب سامنے آیا ہے جب امیدوار نے اس پورے واقعہ کی شکایت وائس چانسلر کے دفتر، یونیورسٹی گرانٹ کمیشن اور وزیر تعلیم دھرمیندر پردھان سے کی۔ امیدوار سہیل اختر نے اپنے خط میں تفصیل سے جامعہ کے شعبہ عربی کے 'کچھ پروفیسروں' کے ذریعہ ہراساں کرنے اور اخلاقیات کا درس پڑھانے کی شکایت کی۔
انہوں نے بتایا کہ '18 اپریل کو سب سے پہلا انٹرویو ان کا ہی ہوا۔ تقریباً 40 منٹ تک انٹرویو لیا گیا۔ زیادہ تر پروفیسرز طوائف لفظ پر اعتراض کررہے تھے۔ میں نے مسلسل دفاع کیا۔ پروفیسر ماجد قاضی کا انکاری رویہ دیکھ کر امیدوار نے موضوع بدل دینے کا آپشن رکھا، جسے خارج کردیا گیا۔ اس پر مزید یہ ہوا کہ جو پروفیسر برہمی ظاہر کررہے تھے وہ امیدوار کے لب و لہجہ پر تنقید کرنے لگے۔ انہیں امیدوار کے ذریعہ اپنے موضوع کا دفاع بالکل پسند نہیں آیا اور کہنے لگے کہ کیا طلبہ اسی لہجہ میں بات کرتے ہیں۔ زیادہ تر پروفیسرز عربی کے اس انٹرویو میں اردو میں بات کررہے تھے۔'
امیدوار نے مزید بتایا کہ 'انٹرویو سے پہلے یہ بتایا گیا کہ تحریری امتحان میں صرف تین امیدوار منتخب ہوکر آئے ہیں جب کہ باقی امیدوار نیٹ اور جی آر ایف (جونئر ریسرچ فیلوشپ) حاصل کر کے آئے ہیں جن کے لئے زیادہ سیٹیں ہیں۔ اس وقت یہ بتایا گیا تھا کہ امسال پی ایچ ڈی کے لئے دس سیٹیں ہیں۔ جب انٹرویو کا ریزلٹ 26 مئی کو آیا تو اسے فوری اپلوڈ نہیں کیا بلکہ اسے 30 مئی کو اپلوڈ کیا گیا۔ اس میں صرف 7 امیدواروں کو منتخب کیا گیا۔ جس کا مطلب باقی سیٹیں خالی چھوڑ دی گئی اور تحریری امتحان میں کامیاب ہونے والے کسی امیدوار کو بھی نہیں لیا گیا۔
امیدوار نے وائس چانسلر کے سامنے یہ سوال اٹھایا ہے کہ 'داخلہ لینا یونیورسٹی کے اختیار میں ہوتا ہے، جس پر کوئی اعتراض نہیں تاہم جس طرح سے انٹریو میں امیدوار کو ہراساں کیا گیا اور محنت سے کامیاب ہوکر آئے امیدوار کو صرف اس بنیاد پر خارج کردینا کہ اس کا لب و لہجہ کچھ پروفیسروں کو شاگردوں والا نہیں لگا، غلط ہے۔ کسی کے اعتماد کو غیر طالبعلمانہ قرار دینے کتنا صحیح ہے۔ پروفیسروں کے رویہ سے یہ شک بھی ہوتا ہے کہ اپنی برہمی کی تسکین کے لئے سیٹیں خالی چھوڑ دی گئیں مگر داخلہ نہیں لیا گیا۔'
امیدوار نے ایک اور سنگین قضیہ کی طرف نشاندہی کرتے ہوئے بتایا کہ انٹرویو کے پینل میں شامل جو اساتذہ تھے وہ زیادہ تر مدرسہ کے فارغین ہیں، وہ بار بار امیدوار کو یہ بتلا رہے تھے کہ کیا تمہیں مدرسہ میں یہ سبق پڑھایا گیا؟ اس طرح کے موضوعات منتخب کرنے کو بتایا گیا؟ امیدوار کے مطابق' انٹرویو کے پینل نے انٹرویو ختم ہونے کے بعد اصلی دستاویزات طلب کئے جو کہ کسی وجہ سے امیدوار کے پاس نہیں تھے۔ امیدوار نے دو دن کی مہلت مانگی جسے انہوں نے فورا خارج کردیا۔ ماجد قاضی جو کہ کشمیر سے ہیں، نے کہا کہ جب میں ایک دن میں کشمیر جیسی جگہ سے اپنے دستاویزات منگوا سکتا ہوں تو تم کیوں نہیں؟ امیدوار نے بارہا بتانے کی کوشش کی کہ کچھ مقامات پر رام نومی کی وجہ سے فسادات ہوئے ہیں اور حالات اچھے نہیں ہیں اسی وجہ سے دستاویزات حاصل کرنے میں کم سے کم تین دن کا وقت دیا جائے۔
امیدوار کی ہر دلیل رد کردی گئی جس کے بعد امیدوار نے رجسٹرار آفس سے تحریری اجازت حاصل کی اور پانچ دن کا وقت دیا گیا۔ اس تحریری اجازت کی اطلاع تمام متعلقہ پینل ممبروں کو دی گئی اور پھر 24 اپریل کی دوپہر امیدوار نے قاضی ماجد اور پروفیسر حلیم کو اصلی دستاویزات دکھائے تو انہوں نے کہا کہ اب کچھ نہیں ہوسکتا۔ تم نے اصل دستاویزات نہیں دکھائے، اب کچھ نہیں کر سکتے ہیں۔ امیدوار نے کہا کہ انہیں پروفیسر نجمہ اختر وائس چانسلر سے امید ہے کہ وہ اس معاملہ میں مداخلت کریں گی اور کم سے کم معاملہ کی جانچ کروائیں گی تاکہ یہ زور زبردستی اور ہراسانی کا سلسلہ رکے اور امیدواروں کو اس طرح سے ہراساں نہ کیا جائے۔