دہلی اقلیتی کمیشن کے چیئرمین ظفر الاسلام خان نے دہلی ہائی کورٹ میں اپنے خلاف ہونے والے غداری کے مقدمے میں پیشگی ضمانت کے لئے درخواست داخل کی ہے۔ ایڈووکیٹ ورندا گروور نے کہا کہ اس درخواست کی سماعت 12 مئی کو ہوگی۔
دہلی پولیس نے 72 سالہ ظفر الاسلام خان کو حراست میں لینے کی کوشش کی جوکسی وجہ سے کامیاب نہیں ہوسکی۔
اب خان کی وکیل ورنداگرور نے دہلی ہائی کورٹ میں ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کے معاملہ میں پیشگی ضمانت کی عرضی داخل کی ہے۔
ورنداگرورکے مطابق عرضی شامل کرنے کی اجازت ملی گئی ہے،آئندہ 12مئی کو اسے لسٹ بھی کردیاجائے گا۔
ورنداگرورنے تقریباً68 صفحات پرمشتمل پیشگی ضمانت کی درخواست داخل کی ہے،جس میں ڈاکٹر ظفرالاسلام خان کے اس ٹویٹ کونقل کیاگیا ہے،جس کی بنیادپر ان پرغداری کامقدمہ درج کیا گیا ہے۔
ڈاکٹرخان کی تعلیمی اہلیت کی تفصیلات دی گئی۔ پھرمختلف میڈیا کے ذریعہ عرب دنیا کی ناراضگی کی رپورٹنگ کی کاپی شیئر کی گئی۔اس کے علاوہ مختلف تفصیلات دی گئی ہے۔
ورنداگرورنے ظفر الاسلام خان کے لئے پیشگی ضمانت کی درخواست دہلی ہائی کورٹ میں داخل کی ہے ،جسے ابھی لسٹ ہوناباقی ہے۔
واضح رہے کہ ڈاکٹر ظفر الاسلام پر دو فرقوں میں عدم رواداری کو بڑھاوا دینے، مساوات اور ہم آہنگی کو نقصان پہنچانے کے تصور کے ساتھ کام کرنے کے تحت ایف آئی آردرج کی گئی ہے۔
فیس بک پوسٹ میں مسٹر خان نے لکھا تھا کہ 'ملک میں مسلمانوں کے ساتھ ظلم ہورہا ہے اور عرب کے متعدد ممالک مسلمانوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ خاص طور سے انہوں نے کویت کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ وہ کویت کا شکریہ ادا کرتے ہیں، جنہوں نے بھارت کے مسلمانوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔ بھارت میں مسلمانوں کے ساتھ کچھ ہوتا ہے تو عرب ممالک خاموش نہیں رہیں گے۔' مفرور ذاکرنائک اور ایسے ہی متعدد لوگوں کا نام لیتے ہوئے ظفرالاسلام نے کہا، وہ(ذاکر نائک)بھی عرب میں ایک مقام رکھتے ہیں۔ اگرضرورت پڑی تو وہ عرب سے بات چیت کریں گے۔