ETV Bharat / state

'آندولن جیوی' کی نئی اصطلاح سے نئی صف بندی کے آثار

author img

By

Published : Feb 9, 2021, 12:38 PM IST

وزیراعظم نریندر مودی گذشتہ کل راجیہ سبھا (ایوان بالا) میں صدر کے خطاب پر اظہار تشکر کر رہے تھے۔ انہوں نے مرکزی بجٹ سے قبل صدر کے خطاب کو تاریخی، وژنری، مستقبل کے لیے حوصلہ افزا کہا اور ان کے خطاب کی جم کر ستائش کی۔ اسی دوران انہوں نے کسانوں کی جاری تحریک پر بھی اپنے احساسات کا اظہار کیا۔ انہوں نے دوران خطاب ایک نئی بحث کی بنیاد بھی ڈال دی۔ انہوں نے کسی کا نام لیے بغیر کہا کہ ملک میں ایک نئی جماعت پیدا ہوگئی ہے جس کو انہوں نے 'آندولن جیوی' سے موسوم کیا۔

Andolan jeevi word signals new alignment
'آندولن جیوی' کی نئی اصطلاح سے نئی صف بندی کے آثار

'آندولن جیوی' ہندی زبان کا ایک لفظ ہے جسے اردو زبان میں 'کسی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والا شخص' یا متحرک سماجی کارکن سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ سیکولر اور جمہوری ملک میں ایسے شخص کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، اس کی تکریم کی جاتی ہے اور اس لیے کی جاتی ہے کہ وہ مظلوموں کی آواز بنتا ہے، ان کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے، ان کے جائز مطالبات کو حکومت اور متعلقہ انتظامیہ تک پہنچاتا ہے۔ کیوں کہ یہ ذہین ہوتے ہیں، یہیں لوگ مظاہروں کو سمت دیتے ہیں اور انہیں گمراہ کن پروپیگنڈا سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ان کے پرامن مظاہروں میں کوئی رخنہ اندازی نہ کرسکے یا اسے بدنام کرنے والوں سے بچایا جاسکے۔

وزیراعظم کی یہ نئی اصطلاح اب ان سماجی کارکنوں کے لیے مصیبت بن سکتی ہے جو کسانوں، طلباء، خواتین، اقلیتی طبقات، کمزور و پسماندہ طبقات کی تحریکوں کی حمایت کرتے ہیں یا ان کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہوتے ہیں۔ ان کے احتجاج یا مظاہروں میں شرکت کرتے ہیں اور حکومت تک ان کی آواز کو پہنچانے میں معاون بنتے ہیں۔ اس تعلق سے ان خدشات کا بھی اظہار کیا جا رہا ہے کہ اب عوامی مظاہروں یا کسی خاص طبقے کے احتجاج میں ساتھ دینے والوں کو انتظامیہ یا حکومت کی عتاب کا شکار ہونا پڑے گا۔ کوئی تنظیم، ادارہ یا کوئی خاص شخصیت اگر کئی احتجاج یا مظاہروں میں شرکت کرتی ہے تو پھر انہیں نشان زد کیا جاسکتا ہے۔ کس نے کہاں کہاں اور کب کب کس کی حمایت کی، سب کا ریکارڈ کھنگالا جائے گا نیز ان کے خلاف انتظامی کاروائی بھی کی جاسکتی ہے اور انہیں میڈیا ٹرائل کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

'آندولن جیوی' کی نئی اصطلاح سے نئی صف بندی کے آثار

بھارت ایک جمہوری اور کثیر آبادی والا ملک ہے۔ یہاں بیک وقت کئی ریاستوں یا مرکز کے زیرانتظام علاقوں میں الگ الگ مانگوں یا مطالبات کے لیے مظاہرے ہوتے رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر آسام میں این آر سی کے خلاف مظاہرے ہوتے ہیں تو مغربی بنگال میں سی اے اے یا کسی دوسرے معاملے کے خلاف مظاہروں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری، خواتین کے خلاف تشدد، طلباء تنظیموں کے الگ الگ مطالبات، کسانوں کے مظاہرے، اقلیتی طبقات کو درپیش مسائل کے خلاف احتجاج سمیت کئی تحریکیں چلتی رہتی ہیں اور اگر ان تحریکوں یا مظاہروں کو کوئی تنظیم یا سیکولر سوچ کے حامل افراد اگر اپنی حمایت کا اعلان کرتے ہیں تو اب یہ فوراً کہہ دیا جائے گا کہ یہ لوگ 'آندولن جیوی' ہیں یا انہیں مظاہروں میں مزا آتا ہے یا یہ لوگ ان مظاہروں کے پس پردہ اپنا ایجنڈا چلا رہے ہیں۔

وزیراعظم کی اس نئی اصطلاح سے سیکولر اور جمہوری روایات پر یقین رکھنے والوں میں خوف کا پایا جانا عبث نہیں ہے کیوں کہ اس نئی اصطلاح سے کسی خاص تنظیم، ادارہ یا شخصیت کو اس سے ٹیگ کیا جاسکتا ہے جو ہمارے جمہوری ملک کے لیے کسی بھی طور سے بہتر نہیں ہے۔

اس سے ان خدشات کو تقویت ملے گی کہ حکومت اب سیکولر اقدار کی حامل تنظیموں، اداروں اور شخصیات کو چُن چُن کر نشانہ بنانے کی کوششوں میں لگ گئی ہے۔ اس سے شہہ پاکر حکومتی ایجنڈے کو ملک بھر میں پھیلانے والے میڈیا ادارے جسے عرف عام میں جانبدار میڈیا کہتے ہیں، کو نیا مسالہ مل گیا ہے۔ وہ اب نہ صرف ان کی کردارکشی کریں گے بلکہ اب خوف یہ ہے کہ نئے سرے سے میڈیا ٹرائل کا دور شروع ہوگا اور ملک کی فضا ایک بار پھر خراب ہوسکتی ہے۔ ان کے کام کو آسان بنانے اور انہیں مواد فراہم کرنے میں کچھ خاص آئی ٹی سیل بھی پوری طرح سرگرم ہوجائیں گے۔

وزیراعظم کے اس خطاب کے بعد ہی ممتاز سماجی کارکن اور سوراج ابھیان کے صدر یوگیندر یادو نے فیس بک لائیو کرکے وزیراعظم کے اس بیان کو افسوسناک، پریشان کن اور جمہوری روایات پر قدغن لگانے والی کوششوں سے تعبیر کیا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کو غالباً یہ معلوم ہی ہوگا کہ یہ ملک مسلسل چلائی جانے والی تحریکوں کی وجہ سے ہی آزاد ہوا ہے۔ بابائے قوم مہاتما گاندھی نے کئی آندولن چھیڑے۔ ستیہ گرہ کی تحریک سے پورا ملک ہی نہیں پوری دنیا واقف ہے۔ کسانوں کے لیے انہوں نے لمبی لڑائی لڑی۔ نیل کی کھیتی سے کسانوں کو آزاد کرایا اور ایسی تحریک شروع کی جس سے یہ ملک انگریزوں کے تسلط سے آزاد ہوا۔ یہ تحریکیں بھی صرف مہاتما گاندھی کی وجہ سے کامیاب نہیں ہوئیں بلکہ ایک بڑی آبادی اور اس وقت کے بڑے رہنماؤں نے ان کا ساتھ دیا۔ مہاتما گاندھی کی چھیڑی گئی ہر تحریک میں اس وقت کے 'آندولن یوگی' بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے جس کے باعث عوام کی بھی ایک بڑی تعداد ان کے ساتھ جڑتی گئی اور فرنگیوں کو ملک چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔ یہ پوری روداد تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہے۔

یوگیندر یادو نے وزیراعظم کے 'پرَجیوی' والے بیان کی پہلے تو یہ کہہ کر وضاحت کی کہ 'پرَجیوی' دوسروں کی بیماری پر پلنے والے کیڑوں کو کہتے ہیں جنہیں کسان اور زرعی سائنسداں خوب جانتے ہیں، انگریزی میں اسے 'پیراسائٹ' کہتے ہیں۔ وزیراعظم کو اس طرح کی باتیں زیب نہیں دیتیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کی زبان سے نکلے ہوئے یہ الفاظ کسی کو بھی اچھے نہیں لگیں گے۔ کیوں کہ وہ سب سے بڑے عہدے پر فائز ہیں اور یہ عہدہ کئی چیزوں کا متقاضی ہے جس کا خیال انہیں رکھنا چاہیے۔ انہوں نے سوالیہ لہجے میں کہا کہ ملک کی سب سے بڑی پنچایت میں ایسی باتیں کبھی کسی نے کی ہیں کیا؟ وہ سماجی کارکنوں سے کیوں خوفزدہ ہیں؟ اتنا ڈر کیوں رہے ہیں؟

انہوں نے مزید کہا کہ وزیراعظم ایک طرف عوامی تحریکوں کی اہمیت کو ختم کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں اور ان تحریکوں کو زندہ رکھنے والوں کو 'آندولن جیوی' کہہ کر مخاطب کر رہے ہیں جبکہ کچھ برسوں پہلے ہی آپ ٹویٹ کیا کرتے تھے کہ اس ملک کو 'جن آندولن' (عوامی تحریکات) کی ضرورت ہے۔ آپ نے خود ہی کانگریس کے خلاف بڑے بڑے مظاہروں میں شرکت کی ہے اور بیک وقت کئی مظاہروں میں بڑھ چڑھ حصہ لیا ہے۔

مسٹر یادو نے اپنے فیس بک لائیو میں ملک کی بڑی بڑی تحریکوں کی مثالیں پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ ملک آندولن سے آزاد ہوا اور آندولن کے ذریعہ ہی یہاں تک پہنچا ہے۔ یہ ملک تحریک کے بطن سے نکلا ہے اس لیے اس کا خمیر جمہوری اور سیکولر ہے۔ انہوں نے (وزیراعظم کے ذریعہ ایف ڈی آئی کی نئی اصطلاح وضع کیے جانے والے بیان) فارن ڈسٹرکٹیو آئیڈیالوجی کی بھی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہاں کچھ لوگ جرمنی کی غیرملکی آئیڈیالوجی ملک پر تھوپنا چاہتے ہیں اور جمہوری طرز کے مظاہروں کو کچلنا چاہتے ہیں یہ ہے اصل میں ایف ڈی آئی جن سے واقعی ملک کو بچانا بہت ضروری ہے۔

اب کئی جہت سے 'آندولن جیوی' اور 'فارن ڈسٹرکٹیو آئیڈیالوجی' والے وزیراعظم کے بیان کی مذمت اور نکتہ چینی کی جا رہی ہے اور اسے پرامن مظاہروں اور جمہوری انداز میں کیے جانے والے احتجاج کو سبوتاژ کرنے کی کوششوں کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

کچھ بعید نہیں کہ وزیراعظم کے اس بیان (عمل) کا ردعمل بھی ہمیں دیکھنے کو ملے۔ سیکولر اقدار کی حامل شخصیات کہیں سوشل میڈیا پر یہ نہ لکھنے لگیں کہ 'آئی سپورٹ آندولن جیوی یا آئی ایم آندولن جیوی'۔ جس کا جواب دینے کے لیے بھی کچھ لوگ میدان میں کودیں گے اور پھر سوشل میڈیا پر گھمسان ہوگا اور جانبدار میڈیا کو اس پر بہت کچھ کہنے اور خصوصی پروگرام چلانے کا موقع مل جائے گا۔ یہ ملک اگر ان لغویات میں پڑتا ہے تو ایک بار پھر ملک اصل موضوع سے ہٹ جائے گا اور غیرضروری ایشوز میں باشندگان ملک جھونک دیے جائیں گے جبکہ ابھی تو کسانوں کی تحریک کی حمایت میں ملک و بین الاقوامی شخصیات آگے آ رہی ہیں اور اس طرح کے شوشے سے ایک نئی بحث کا آغٓاز ہوگا جو ملک کے مفاد میں قطعی نہیں ہوگا۔

'آندولن جیوی' ہندی زبان کا ایک لفظ ہے جسے اردو زبان میں 'کسی تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والا شخص' یا متحرک سماجی کارکن سے تعبیر کر سکتے ہیں۔ سیکولر اور جمہوری ملک میں ایسے شخص کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، اس کی تکریم کی جاتی ہے اور اس لیے کی جاتی ہے کہ وہ مظلوموں کی آواز بنتا ہے، ان کے ساتھ کھڑا ہوتا ہے، ان کے جائز مطالبات کو حکومت اور متعلقہ انتظامیہ تک پہنچاتا ہے۔ کیوں کہ یہ ذہین ہوتے ہیں، یہیں لوگ مظاہروں کو سمت دیتے ہیں اور انہیں گمراہ کن پروپیگنڈا سے محفوظ رکھنے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ ان کے پرامن مظاہروں میں کوئی رخنہ اندازی نہ کرسکے یا اسے بدنام کرنے والوں سے بچایا جاسکے۔

وزیراعظم کی یہ نئی اصطلاح اب ان سماجی کارکنوں کے لیے مصیبت بن سکتی ہے جو کسانوں، طلباء، خواتین، اقلیتی طبقات، کمزور و پسماندہ طبقات کی تحریکوں کی حمایت کرتے ہیں یا ان کے شانہ بہ شانہ کھڑے ہوتے ہیں۔ ان کے احتجاج یا مظاہروں میں شرکت کرتے ہیں اور حکومت تک ان کی آواز کو پہنچانے میں معاون بنتے ہیں۔ اس تعلق سے ان خدشات کا بھی اظہار کیا جا رہا ہے کہ اب عوامی مظاہروں یا کسی خاص طبقے کے احتجاج میں ساتھ دینے والوں کو انتظامیہ یا حکومت کی عتاب کا شکار ہونا پڑے گا۔ کوئی تنظیم، ادارہ یا کوئی خاص شخصیت اگر کئی احتجاج یا مظاہروں میں شرکت کرتی ہے تو پھر انہیں نشان زد کیا جاسکتا ہے۔ کس نے کہاں کہاں اور کب کب کس کی حمایت کی، سب کا ریکارڈ کھنگالا جائے گا نیز ان کے خلاف انتظامی کاروائی بھی کی جاسکتی ہے اور انہیں میڈیا ٹرائل کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

'آندولن جیوی' کی نئی اصطلاح سے نئی صف بندی کے آثار

بھارت ایک جمہوری اور کثیر آبادی والا ملک ہے۔ یہاں بیک وقت کئی ریاستوں یا مرکز کے زیرانتظام علاقوں میں الگ الگ مانگوں یا مطالبات کے لیے مظاہرے ہوتے رہتے ہیں۔ مثال کے طور پر آسام میں این آر سی کے خلاف مظاہرے ہوتے ہیں تو مغربی بنگال میں سی اے اے یا کسی دوسرے معاملے کے خلاف مظاہروں کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ مہنگائی، بے روزگاری، خواتین کے خلاف تشدد، طلباء تنظیموں کے الگ الگ مطالبات، کسانوں کے مظاہرے، اقلیتی طبقات کو درپیش مسائل کے خلاف احتجاج سمیت کئی تحریکیں چلتی رہتی ہیں اور اگر ان تحریکوں یا مظاہروں کو کوئی تنظیم یا سیکولر سوچ کے حامل افراد اگر اپنی حمایت کا اعلان کرتے ہیں تو اب یہ فوراً کہہ دیا جائے گا کہ یہ لوگ 'آندولن جیوی' ہیں یا انہیں مظاہروں میں مزا آتا ہے یا یہ لوگ ان مظاہروں کے پس پردہ اپنا ایجنڈا چلا رہے ہیں۔

وزیراعظم کی اس نئی اصطلاح سے سیکولر اور جمہوری روایات پر یقین رکھنے والوں میں خوف کا پایا جانا عبث نہیں ہے کیوں کہ اس نئی اصطلاح سے کسی خاص تنظیم، ادارہ یا شخصیت کو اس سے ٹیگ کیا جاسکتا ہے جو ہمارے جمہوری ملک کے لیے کسی بھی طور سے بہتر نہیں ہے۔

اس سے ان خدشات کو تقویت ملے گی کہ حکومت اب سیکولر اقدار کی حامل تنظیموں، اداروں اور شخصیات کو چُن چُن کر نشانہ بنانے کی کوششوں میں لگ گئی ہے۔ اس سے شہہ پاکر حکومتی ایجنڈے کو ملک بھر میں پھیلانے والے میڈیا ادارے جسے عرف عام میں جانبدار میڈیا کہتے ہیں، کو نیا مسالہ مل گیا ہے۔ وہ اب نہ صرف ان کی کردارکشی کریں گے بلکہ اب خوف یہ ہے کہ نئے سرے سے میڈیا ٹرائل کا دور شروع ہوگا اور ملک کی فضا ایک بار پھر خراب ہوسکتی ہے۔ ان کے کام کو آسان بنانے اور انہیں مواد فراہم کرنے میں کچھ خاص آئی ٹی سیل بھی پوری طرح سرگرم ہوجائیں گے۔

وزیراعظم کے اس خطاب کے بعد ہی ممتاز سماجی کارکن اور سوراج ابھیان کے صدر یوگیندر یادو نے فیس بک لائیو کرکے وزیراعظم کے اس بیان کو افسوسناک، پریشان کن اور جمہوری روایات پر قدغن لگانے والی کوششوں سے تعبیر کیا۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کو غالباً یہ معلوم ہی ہوگا کہ یہ ملک مسلسل چلائی جانے والی تحریکوں کی وجہ سے ہی آزاد ہوا ہے۔ بابائے قوم مہاتما گاندھی نے کئی آندولن چھیڑے۔ ستیہ گرہ کی تحریک سے پورا ملک ہی نہیں پوری دنیا واقف ہے۔ کسانوں کے لیے انہوں نے لمبی لڑائی لڑی۔ نیل کی کھیتی سے کسانوں کو آزاد کرایا اور ایسی تحریک شروع کی جس سے یہ ملک انگریزوں کے تسلط سے آزاد ہوا۔ یہ تحریکیں بھی صرف مہاتما گاندھی کی وجہ سے کامیاب نہیں ہوئیں بلکہ ایک بڑی آبادی اور اس وقت کے بڑے رہنماؤں نے ان کا ساتھ دیا۔ مہاتما گاندھی کی چھیڑی گئی ہر تحریک میں اس وقت کے 'آندولن یوگی' بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے رہے جس کے باعث عوام کی بھی ایک بڑی تعداد ان کے ساتھ جڑتی گئی اور فرنگیوں کو ملک چھوڑ کر بھاگنا پڑا۔ یہ پوری روداد تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہے۔

یوگیندر یادو نے وزیراعظم کے 'پرَجیوی' والے بیان کی پہلے تو یہ کہہ کر وضاحت کی کہ 'پرَجیوی' دوسروں کی بیماری پر پلنے والے کیڑوں کو کہتے ہیں جنہیں کسان اور زرعی سائنسداں خوب جانتے ہیں، انگریزی میں اسے 'پیراسائٹ' کہتے ہیں۔ وزیراعظم کو اس طرح کی باتیں زیب نہیں دیتیں۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم کی زبان سے نکلے ہوئے یہ الفاظ کسی کو بھی اچھے نہیں لگیں گے۔ کیوں کہ وہ سب سے بڑے عہدے پر فائز ہیں اور یہ عہدہ کئی چیزوں کا متقاضی ہے جس کا خیال انہیں رکھنا چاہیے۔ انہوں نے سوالیہ لہجے میں کہا کہ ملک کی سب سے بڑی پنچایت میں ایسی باتیں کبھی کسی نے کی ہیں کیا؟ وہ سماجی کارکنوں سے کیوں خوفزدہ ہیں؟ اتنا ڈر کیوں رہے ہیں؟

انہوں نے مزید کہا کہ وزیراعظم ایک طرف عوامی تحریکوں کی اہمیت کو ختم کرنے کی کوششیں کر رہے ہیں اور ان تحریکوں کو زندہ رکھنے والوں کو 'آندولن جیوی' کہہ کر مخاطب کر رہے ہیں جبکہ کچھ برسوں پہلے ہی آپ ٹویٹ کیا کرتے تھے کہ اس ملک کو 'جن آندولن' (عوامی تحریکات) کی ضرورت ہے۔ آپ نے خود ہی کانگریس کے خلاف بڑے بڑے مظاہروں میں شرکت کی ہے اور بیک وقت کئی مظاہروں میں بڑھ چڑھ حصہ لیا ہے۔

مسٹر یادو نے اپنے فیس بک لائیو میں ملک کی بڑی بڑی تحریکوں کی مثالیں پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ ملک آندولن سے آزاد ہوا اور آندولن کے ذریعہ ہی یہاں تک پہنچا ہے۔ یہ ملک تحریک کے بطن سے نکلا ہے اس لیے اس کا خمیر جمہوری اور سیکولر ہے۔ انہوں نے (وزیراعظم کے ذریعہ ایف ڈی آئی کی نئی اصطلاح وضع کیے جانے والے بیان) فارن ڈسٹرکٹیو آئیڈیالوجی کی بھی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہاں کچھ لوگ جرمنی کی غیرملکی آئیڈیالوجی ملک پر تھوپنا چاہتے ہیں اور جمہوری طرز کے مظاہروں کو کچلنا چاہتے ہیں یہ ہے اصل میں ایف ڈی آئی جن سے واقعی ملک کو بچانا بہت ضروری ہے۔

اب کئی جہت سے 'آندولن جیوی' اور 'فارن ڈسٹرکٹیو آئیڈیالوجی' والے وزیراعظم کے بیان کی مذمت اور نکتہ چینی کی جا رہی ہے اور اسے پرامن مظاہروں اور جمہوری انداز میں کیے جانے والے احتجاج کو سبوتاژ کرنے کی کوششوں کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

کچھ بعید نہیں کہ وزیراعظم کے اس بیان (عمل) کا ردعمل بھی ہمیں دیکھنے کو ملے۔ سیکولر اقدار کی حامل شخصیات کہیں سوشل میڈیا پر یہ نہ لکھنے لگیں کہ 'آئی سپورٹ آندولن جیوی یا آئی ایم آندولن جیوی'۔ جس کا جواب دینے کے لیے بھی کچھ لوگ میدان میں کودیں گے اور پھر سوشل میڈیا پر گھمسان ہوگا اور جانبدار میڈیا کو اس پر بہت کچھ کہنے اور خصوصی پروگرام چلانے کا موقع مل جائے گا۔ یہ ملک اگر ان لغویات میں پڑتا ہے تو ایک بار پھر ملک اصل موضوع سے ہٹ جائے گا اور غیرضروری ایشوز میں باشندگان ملک جھونک دیے جائیں گے جبکہ ابھی تو کسانوں کی تحریک کی حمایت میں ملک و بین الاقوامی شخصیات آگے آ رہی ہیں اور اس طرح کے شوشے سے ایک نئی بحث کا آغٓاز ہوگا جو ملک کے مفاد میں قطعی نہیں ہوگا۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.