علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں 15 دسمبر 2019 کے روز پولیس نے طلبا پر کارروائی کی تھی۔ اس دوران طلبا کی گاڑیوں کو ضبط کیا گیا تھا۔
اس دن پیش آئے واقعہ میں علی گڑھ پولیس نے مولانا آزاد لائبریری اور دوسری جگہوں سے طلبا کی موٹر سائیکلز کو قبضہ میں لے لیا تھا۔
آج یونیورسٹی کے پراکٹر پروفیسر محمد وسیم علی نے بائکز کو پولیس سے لے کر طلبا کو واپس دی۔
واضح رہے کہ 15 دسمبر کے تشدد میں 40 سے زیادہ طلبا زخمی ہوئے تھے اور ایک طالب علم کا علاج کے دوران ہاتھ بھی کاٹنا پڑا اور تقریبا 11 موٹر سائیکلز کو مولانا آزاد لائبریری اور یونیورسٹی کی دیگر جگہوں سے اٹھا کر پولیس نے سول لائن تھانے میں جمع کروا دیا تھا۔
آج یونیورسٹی پراکٹر پروفیسر محمد وسیم علی نے علی گڑھ انتظامیہ سے مل کر تقریبا آٹھ موٹر سائیکلوں کو سول لائن تھانے سے واپس لے کر طلبہ کو دے دی گئی جس سے طلباء میں خوشی کا ماحول ہے۔
یونیورسٹی پروکٹر پروفیسر محمد وسیم علی نے بتایا 15، 16 کی رات کو کچھ بچے لائبریری میں پڑھ رہے تھے اور کچھ ادھر ادھر تھے تو جب ہنگامہ ہوا تو بچے چھوڑ چھاڑ کر بھاگ گئے اور سی سی ٹی وی فوٹیج میں آرہا ہیں کہ پولیس ان موٹر سائیکلوں کو اٹھا کر تھانے میں جمع کروا دیا تھا۔ ان موٹر سائیکل کی وجہ سے پریشانی ہو رہی تھی تو ہم نے علی انتظامیہ سے ملاقات کی انہوں نے کہا طلبا سے ایفیڈیوٹ لے لیجئے کہ وہ سی سی ٹی وی فوٹیج میں کہیں نہیں تھے اور نام بھی نہیں ہے۔ لہذا ہم نے ویسا ہی کیا اور جس کی بناء پر آج انکی موٹرسائیکل چھوڑ وا دی گئی، تقریبا سات سے آٹھ
موٹر سائیکل تھی اور تین اور موٹر سائیکل ہیں ان کو بھی چھڑوا لیا جائے گا۔
مزید پڑھیں:دہلی اسمبلی انتخابات: نتائج کے بعد کا منظر کیسا ہوگا؟
طالب علم محمد صوالہ نے بتایا ایک مہینے 25 دن ہوگئے اج میری بائک چھوٹی ہے۔ جو حملہ ہوا تھا کچھ طلبہ کی جانب سے یا پولیس کی جانب سے گولے چلائے گئے تھے اور گولی
وغیرہ چلی تھی تو اسی رات میری بائک لائبریری میں کھڑی ہوئی تھی اور وہ وہا سے پولیس نے میری موٹر سائیکل اٹھالی تھی اور تھانہ سول لائن میں جمع کرتی تھی۔