نئی دہلی، کراچی: ایک ہندوستانی باپ بیٹا بھارت سے پاکستان میں غیر قانونی طور پر داخل ہوئے، داخل ہونے کے بعد باپ بیٹے نے پاکستانی میڈیا سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ وہ مبینہ مذہبی ظلم و ستم سے بچنے کے لیے شمال مشرقی دہلی میں اپنے گھر سے فرار ہوگئے ہیں۔ تقریباً 70 سالہ محمد حسنین اور ان کا 31 سالہ بیٹا اسحاق عامر، شورش زدہ صوبہ بلوچستان میں چمن کے مقام پر پاک افغان سرحد کے ذریعہ غیر قانونی طور پر پاکستان میں داخل ہوئے۔ وہ اس وقت کراچی میں ایدھی ویلفیئر ٹرسٹ کے ایک شیلٹر ہوم میں ہیں، جہاں یہ تقریباً 14 دن پہلے پہنچے تھے۔ حسنین نے کہا ہے کہ ، "اگر پاکستانی حکام ہمیں جیل میں ڈالنا چاہتے ہیں تو ہم اس کے لیے تیار ہیں۔ ہم بغیر قانونی دستاویزات کے آئے ہیں لیکن ہم پناہ لینے کی کوشش کریں گے۔"
یہ بھی پڑھیں:
- Seema Haider from Pakistan کراچی سے نوئیڈا آئی سیما گرفتار، پب جی کے ذریعہ سچن کی محبت میں پھنسی تھی
حسنین اور عامر کا تعلق شمال مشرقی دہلی کے علاقے گوتم پوری سے ہے. جہاں انہوں نے الزام لگایا کہ انہیں طویل عرصے تک ہراساں اور مذہبی ظلم و ستم کا سامنا رہا. جس کے بعد انہوں نے پاکستان فرار ہونے کا فیصلہ کیا۔ حسنین نے کہا کہ ہمیں کراچی پہنچنے میں 14 دن لگے جہاں ہم پولیس اسٹیشن گئے اور ان کے سامنے ہتھیار ڈال دیے۔ دونوں 5 ستمبر کو نئی دہلی سے دبئی کے لیے روانہ ہوئے جہاں انہیں افغانستان کے سفارت خانے سے ویزا مل گیا۔ انہوں نے کہا کہ "ہم نے ویزے حاصل کیے اور کابل کے لیے اڑان بھری جہاں سے ہم بذریعہ سڑک قندھار گئے اور وہاں سے ہم چمن بارڈر کے ذریعہ پاکستان میں داخل ہوئے۔"
دونوں ایک افغان ایجنٹ کی مدد سے سرحد پار کرنے میں کامیاب ہوئے اور بعد میں انہوں نے ٹیکسی ڈرائیور کو کراچی لے جانے کے لیے 60,000 روپے ادا کیے۔ کراچی کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل آف پولیس (جنوبی) اسد رضا نے کہا کہ ان دونوں پر جاسوس ہونے کا شبہ نہیں تھا لیکن انہیں "مذہبی تعصب اور ظلم و ستم کا شکار" سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان کے دفتر خارجہ نے ابھی تک اس معاملے پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے۔ واضح رہے کہ محمد حسنین دہلی میں ایک سیاسی جماعت کے صدر کی حیثیت سے اپنی خدمات انجام دے رہے تھے، وہ پارلیمانی اور اسمبلی انتخابات میں بھی حصہ لے چکے ہیں البتہ انہیں کامیابی نہیں ملی۔ ان کی پارٹی کا نام قومی پارٹی آف انڈیا ہے۔ اس کے علاوہ شمال مشرقی دہلی میں وہ نوجوان وکلاء کو بھی انگریزی میں ڈرافٹنگ سکھانے کا کام انجام دیا کرتے تھے۔ اس کے ساتھ ہی ایک اخبار بھی نکالا کرتے تھے۔