نئی دہلی:جامعہ ملیہ اسلامیہ میں یومِ جمہوریہ کے موقع پر آل انڈیا مشاعرہ اور کوی سمّیلن کا انعقادکیا گیا۔ اس موقع پر جامعہ ملیہ اسلامیہ کی وائس چانسلر پدم شری پروفیسر نجمہ اختر نے کہا کہ آزاد،سیکولر اور جمہوری ہندوستان کی تعمیر میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کا کردار نہایت قابلِ فخر رہا ہے۔
NAAC جیسے باوقار ادارے کی جانب سے جامعہ ملیہ اسلامیہ کو A++ کا گریڈ دیاجانا پوری جامعہ برادری کے لیے نہایت اعزاز کی بات ہے۔آج بیوروکریسی، عدلیہ، میڈیا اور تمام اہم شعبوں میں فرزندانِ جامعہ بے مثال کارنامے انجام دے رہے ہیں۔
اس موقع پر مہمانِ خصوصی جوائنٹ سکریٹری وزارت برائے صنعت ڈاکٹر حنیف قریشی (آئی پی ایس) نے کہا کہ بحیثیت جامعہ میں اپنے مادرِ علمی جامعہ ملیہ اسلامیہ کے لیے نہایت جذباتی ہوں، اور یہ ایک حقیقت ہے کہ میں آج جو کچھ ہوں، وہ جامعہ ہی کی دین ہے۔
میں آج بھی جب جامعہ کے کیمپس میں داخل ہوتا ہوں تو محسوس ہوتا ہے کہ اپنے گھر میں آگیا ہوں۔ مہمانِ اعزازی ڈپٹی سکریٹری وزارت برائے ثقافت ڈاکٹر شاہ فیصل (آئی اے ایس) نے نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ جامعہ آج قومی اور بین الاقوامی سطح پر ایک قابلِ رشک ادارہ بن گیا ہے۔
مہمانِ اعزازی سابق صدر شعبۂ ہندی، جامعہ ملیہ اسلامیہ پروفیسر اشوک چکردھر نے جامعہ کی دل کش تہذیبی و ثقافتی فضا کی تعریف کرتے ہوئے کہا کہ میں جامعہ کو گنگاجمنی تہذیب کی روح سمجھتاہوں۔
استقبالیہ کلمات پیش کرتے ہوئے پروفیسر شبر رسول نے کہا کہ جامعہ ملیہ اسلامیہ میں مشاعروں کی روایت بے حد مستحکم اور معیاری رہی ہے اور اس سلسلے کو محترمہ وائس چانسلر صاحبہ نے نہ صرف تقویت بخشی ہے ،بلکہ وہ ہمارے اس تہذیبی ورثے سے خصوصی شغف بھی رکھتی ہیں۔
اس مشاعرے اور کوی سمّیلن کے انعقاد میں پروفیسر شہبر رسول اور ڈاکٹر احمد نصیب خان نے اہم کردار ادا کیا۔ مشاعرے کا اختتام جامعہ ملیہ اسلامیہ کے رجسٹرار پروفیسر ناظم حسین کے اظہار تشکر پر ہوا۔
مزید پڑھیں:BBC Documentary Screening جامعہ ملیہ اسلامیہ میں بی بی سی کی دستاویزی فلم پر ہنگامہ
نظامت کے فرائض معین شاداب نے انجام دیے۔ شعرا اور کویوں نے اپنے کلام سے سامعین کو محظوظ کیا ان میں پروفیسر اشوک چکردھر، پروفیسر خالد محمود، پروفیسر شہپر رسول، پروفیسر چندردیو یادو، پروفیسر احمد محفوظ، پروفیسر درگاپرساد، دنیش رگھونشی، ماجد دیوبندی، معین شاداب، شاہد انجم، ڈاکٹر احمد نصیب خان، سلمیٰ شاہین، علینا عترت، ڈاکٹر خالد مبشر اور خان رضوان کے نام شامل ہیں۔
نمونۂ کلام ملاحظہ ہو:
نظامِ جسم جمہوری ہے خالد
کسی جذبے کی سلطانی نہیں ہے
خالد محمود
تمھارا شہر ہے تم جو کہو بجا ہے وہ
ہمارا صرف خدا ہے مگر خدا ہے وہ
شہپر رسول
یوں تو بہت ہے مشکل بندِ قبا کا کھلنا
جو کھل گیا تو پھر یہ عقدہ کھلا رہے گا
احمد محفوظ
اللہ مرے رزق کی برکت نہ چلی جائے
دو روز سے گھر میں کوئی مہمان نہیں ہے
ماجد دیوبندی
ان سے ملنے کی خوشی بعد میں دکھ دیتی ہے
جشن کے بعد کا سناٹا بہت کھلتا ہے
معین شاداب
سلگتی دھوپ ستاروں کی چھاؤں جیسی ہے
وطن کی دھول بھی ماں کی دعاؤں جیسی ہے
شاہدانجم
نہ مشورہ دو ہمیں تم کسی سہارے کا
جوپستہ قد ہیں وہی سیڑھیاں تلاش کریں
احمد نصیب خان
آئینہ دیکھا انھوں نے، انھیں آئینے نے
دونوں کو آج مزا مل گیا حیرانی کا
سلمیٰ شاہین
اپنی مٹی پہ اگر ناز نہیں کر سکتے
زندگی ہم ترا آغاز نہیں کر سکتے
علینا عترت
مفت شہرت مل گئی فرہاد کو
اصل میں جوکوہ کن ہے عشق ہے
خالدمبشر
طلسم خانۂ حیرت ہے ایک پتلی میں
دکھاتی ہیں مجھے کیاکیا یہ مختصر آنکھیں
خان رضوان