دہلی: مکتبہ جامعہ کی اردو بازار شاخ میں گذشتہ 40 برس سے اپنی خدمات انجام دے رہے علی خسرو زیدی کو مکتبہ جامعہ کے صدر دفتر سے ایک خط بھیجا گیا ہے جس میں اس بات پر ناراضگی ظاہر کی گئی ہے کہ انہوں نے تنخواہ کے مسئلہ کو میڈیا کے سامنے غلط طور پر پیش کیا ہے جبکہ علی خسرو زیدی کا کہنا ہے کہ انہوں نے میڈیا سے وہی کہا ہے جو حقیقت ہے۔ اس سب کے بعد علی خسرو زیدی نے سوشل میڈیا پر اپیل کرتے ہوئے اس قدیمی ادارے کو بچانے کی اپیل کی ہے۔ اس پورے معاملے پر ای ٹی وی بھارت کے نمائندے نے اردو بازار میں واقع مکتبہ جامعہ میں اپنی خدمات انجام دے رہے علی خسروں زیدی سے بات کی جس میں انہوں نے بتایا کہ وہ گذشتہ کافی عرصہ سے صدر دفتر میں خط و کتابت کے ذریعے رابطہ کرکے اپنی پریشانیوں سے متعلق مطلع کر رہا ہوں لیکن صدر دفتر سے کوئی جواب نہیں آ رہا۔
علی خسرو زیدی کا کہنا ہے کہ انہوں نے مکتبہ جامعہ کے اکاؤنٹینٹ، مینیجنگ ڈائریکٹر، اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کی شیخ الجامعہ کو بھی خط لکھے ہیں لیکن تمام تر کوششوں کے باوجود ابھی تک خاموشی ہے مجھے کسی بھی بات کا ابھی تک کوئی جواب نہیں ملا اس کے بعد ہی میں نے مجبورا سوشل میڈیا پر اردو داں طبقہ سے اپیل کی ہے کہ وہ اس ادارے کو بند ہونے سے بچانے کے لیے آگے آئیں۔ انہوں نے بتایا کہ گذشتہ پندرہ روز سے مسلسل میں کتابوں کے لیے اپنے ملازم کو صدر دفتر بھیج رہا ہوں تاکہ جو طلباء ان کے پاس کتابیں خریدنے آ رہے ہیں انہیں وہ کتابیں دستیاب کرا سکے لیکن صدر دفتر سے بہانہ بازی سے کام لیا جا رہا ہے اس سب کے بعد میں نے مینیجنگ ڈائریکٹر کو بھی ذاتی طور پر کتابوں کی ترسیل کے لیے درخواست کی لیکن انہوں نے بھی کوئی جواب نہیں دیا۔ علی خسرو زیدی کا کہنا ہے کہ اگر کتابیں صدر دفتر کے ذریعے مکتبہ جامعہ کی اردو بازار میں واقع برانچ میں دستیاب کرا دی جاتی تو اس سے ان کا کوئی ذاتی فائدہ نہیں ہوتا بلکہ یہ پیسہ صدر دفتر کے خزانے میں ہی جمع ہوتا لیکن اعلی افسران کے اس برتاؤ کی وجہ سے نہ صرف طلباء کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑھ رہا ہے بلکہ مکتبہ جامعہ کے خزانے میں بھی کمی آ رہی ہے۔
یہ بھی پڑھیں : Maktaba Jamia Delhi کیا مکتبہ جامعہ کو بند کرنے کی سازش ہے؟