عرضی کی شروعات امن اور انصاف کی بحالی پر عدالت کے موقف سے ہوئی۔
عدالت کے سامنے یہ سوال بھی رکھا گیا کہ اگر ہندو فریق کو زمین دی گئی ہے تو اس کا مطلب 1992 میں بھی اراضی کے مالک وہی تھے۔
جب کہ خود عدالت نے مسجد کی تعمیر کے بارے میں یہ مانا ہے کہ اس کی تعمیر غیر قانونی نہیں تھی۔
اس تعلق سے مسلم پرسنل لا بورڈ کے وکیل ظفریاب جیلانی نے ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ بورڈ کی جانب سے 6 عرضیاں داخل کی گئی ہیں۔
اس سے قبل بھی ای ٹی بھارت سے خصوصی بات جیت میں ایڈوکیٹ ظفریاب جیلانی نے کہا تھا کہ 'اس فیصلے میں کئی نقاط ایسے ہیں جو مستقبل میں پریشانی کھڑی کرسکتی ہیں۔ لہذا ہم بورڈ کی ہونے والی میٹنگ میں اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ سپریم کورٹ میں نظرثانی کی عرضی داخل کریں یا نہیں'۔
ایودھیا مسئلے پر سپریم کورٹ نے اپنا فیصلہ سنا دیا ہے لیکن کیا مسلم فریق اس پر نظرثانی کی عرضی داخل کریں گے یا نہیں؟ اس کا فیصلہ آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ کے 17 نومبر کی میٹنگ میں ہوگا۔
یوپی سنی سنٹرل وقف بورڈ کے ایڈووکیٹ ظفریاب جیلانی نے ای ٹی وی بھارت سے خصوصی بات چیت کے دوران کہا کہ ہم عدالت عظمی کے فیصلے کا خیرمقدم کرتے ہیں لیکن ہم اس فیصلے سے مایوس ہیں۔کیونکہ جس طرح سے ہم نے بحث کی، دلائل پیش کئے اور ثبوت دکھائے اس کے مطابق فیصلہ نہیں آیا لہذا 17 نومبر کو بورڈ کی میٹنگ میں یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ نظر ثانی کی عرضی داخل مکرنی ہے کی نہیں، لیکن میرا ذاتی طور پر ماننا ہے کہ ہمیں ریویو پٹشن ہر حال میں دائر کرنا چاہیے۔
جیلانی نے کہا کہ اس فیصلے سے جہاں ہمیں ایک طرف مایوسی ہوئی ہے وہیں فیصلے میں کچھ ایسی بھی باتیں سامنے آئی ہیں جو مستقبل میں ہماری قوم کیلیے بہتر ثابت ہوگا۔
1۔ 1857 کے پہلے مسجد میں نماز نہیں ہوتی تھی یہ کورٹ نے اپنے بیان میں کہا، لیکن ہمارا کہنا یہ ہے کہ جب مسجد ہے تو وہاں نماز کیوں نہیں ہوگی؟ مسجد نماز کے لیے ہی قائم کی جاتی ہے۔
2۔ سپریم کورٹ نے کہا کہ اس بات کے کوئی ثبوت نہیں ملے کہ مسجد میں نماز ہوتی تھی۔ اس پر ظفریاب جیلانی نے کہا کہ پہلے زمانے میں دستاویز عام طور پر لوگ نہیں رکھتے تھے۔
3۔ انگریزی حکومت میں اس بات کے ثبوت ملتے ہیں کہ جب سے میر باقی نے مسجد قائم کی تھی، اس کے بعد سے مسلسل مسجد کو تمام اخراجات کے لیے رقم ملتی رہی، یہ بات گزیٹ سے ثابت ہو جاتی ہے۔ مغل بادشاہ کے دور سے جو مالی امداد مسجد کو ملتی تھی وہ نوابین کے دور میں بھی ملتی رہی، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ وہاں نماز ہوتی تھی۔
4۔ اگر فیصلے میں کوئی غلطی ہمیں نظر آتی ہے تو، یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم کورٹ کو پوائنٹ آؤٹ کریں تاکہ مستقبل میں کوئی پریشانی نہ ہو۔
5۔ جہاں تک ریویو پٹیشن کا معاملہ ہے تو 2010 میں ہائی کورٹ نے جو فیصلہ سنایا تھا، تمام لوگوں نے ہم سے کہا تھا کہ اس معاملے کو یہیں ختم کر دیں لیکن ہم نے سپریم کورٹ میں چیلینج کیا۔
1986 میں ویر بہادر سنگھ نے ہمیں آفر دیا تھا کہ بابری مسجد کے بدلے پانچ ایکڑ زمین اور پانچ کروڑ روپیہ لے اور اپنا دعوی چھوڑ دیں۔ تب مولانا علی میاں صاحب نے کہا تھا کہ شریعت ہمیں اس کی اجازت نہیں دیتی۔
ایڈوکیٹ ظفریاب جیلانی نے کہا تھا کہ اس فیصلے میں کئی نقاط ایسے ہیں جو مستقبل میں پریشانی کھڑی کرسکتی ہیں۔ لہذا ہم بورڈ کی ہونے والی میٹنگ میں اس بات کا فیصلہ کریں گے کہ سپریم کورٹ میں ریویو پٹیشن دائر کریں یا نہیں۔