وزارت خارجہ کے ترجمان رویش کمار کا کہنا ہے کہ پاکستان سے متضاد خبریں موصول ہو رہی ہیں۔
وزارت خارجہ کے ترجمان کا یہ تبصرہ پاکستان میں فوج کے بیان کے بعد آیا ہے جس میں پاکستانی فوج کے ترجمان نے کہا کہ کرتار پور آنے والے بھارتی یاتریوں کے لیے ویزا ضروری ہوگا۔
اس سے قبل پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان نے ٹویٹ کرکے اعلان کیا تھا کہ تیرتھ یاتریوں کو پاسپورٹ کی ضرورت نہیں ہوگی۔
حقیقی صورت حال کے بارے میں پوچھے جانے پر رویش کمار نے کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان ایک معاہدہ پر دستخط کیا گیا ہے اور اس میں پاسپورٹ کو لازمی قرا ردیا گیا ہے۔
حقیقت میں یاترا کا یہ ضابطہ اس وقت تک نافذ رہے گا جب تک کہ معاہدہ کے ترمیمی مسودہ پر دستخط نہ ہو جائے۔ پاکستان یا ہندوستان کو معاہدہ میں یک طرفہ تبدیلی کرنے یا اعلان کرنے کا کوئی حق نہیں ہے۔
ایک دیگر سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ بھارت نے نو نومبر کو افتتاحی پروگرام کے تحت کرتارپور جانے والے 576 افراد کی فہرست پاکستان کو 30اکتوبر کو سونپی تھی۔
جس پر پانچ نومبر تک پاکستان کی منظوری آجانی تھی۔انہوں نے رسمی منظوری نہیں آنے کا اشارہ دیتے ہوئے کہا کہ ہم یہ مان کرچل رہے ہیں کہ منظوری مل جائے گی اور اسی نقطہ نظر سے ہم نے ان تمام لوگوں کو کہ دیا ہے کہ وہ چلنے کو تیار رہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان سے نو تاریخ سے پہلے ایک ایڈوانس پارٹی کے کرتار پور جانے کی اجازت دینے کی درخواست کی گئی تھی جس میں سابق وزیر اعظم من موہن سنگھ، وزیراعلی کیپٹن امریندر سنگھ اورسابق وزیر اعلی پرکاش سنگھ بادل کی سیکورٹی کے انتظامات کی جانچ کی جاسکے تاہم پاکستان نے اس کی بھی اجازت نہیں دی ہے۔
کانگریس پارٹی کے رہنما اور سابق وزیر نوجوت سنگھ سدھو کو پاکستان جانے کی سفارتی منظوری دئے جانے کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں ترجمان نے کہا کہ ذاتی معاملات پر ان کا تبصرہ ضروری نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ سدھو کیا کرنا چاہتے ہیں یہ ان پر منحصر ہے۔ کرتارپور راہدری کا موضوع کافی بڑا ہے اس لیے ہم افراد کے مسائل پر توجہ مرکوز نہیں کرسکتے ہیں۔
کرتار پور راہداری کے کھلنے کے بعد دونوں ممالک کے درمیان امن مذاکرات دوبارہ شروع ہونے کے امکان کے بارے میں پوچھے جانے پر ترجمان نے کہا کہ ہم نے کبھی نہیں کہا کہ اس راہداری کے کھلنے سے امن مذاکرات دوبارہ شروع ہوں گے۔
بھارت کا موقف بالکل واضح ہے کہ پاکستان اپنے کنٹرول والے علاقوں میں شدت پسندوں کے خلاف موثر کارروائی کرے اور شدت پسندی کے ڈھانچے کو تباہ کرے تبھی دہشت گردی سے پاک ماحول میں باہمی با ت چیت شروع ہوسکتی ہے۔
واضح رہے کہ سدھو نے وزیر خارجہ سبرامنیم جے شنکر کو تین مرتبہ خط لکھ کر سفارتی منظوری دینے کی درخوات کی ہے۔