ETV Bharat / state

Afghanistan School in Delh دہلی میں واقع افغان ہائی اسکول فنڈ کی قِلت کے باعث بند ہونے کے دہانے پر

افغانستان میں اقتدار کی تبدیلی کے کئی ماہ بعد دہلی میں افغان بچوں کا اسکول اب بند ہونے کے دہانے پر ہے۔ اسکول کا نام سید جمال الدین افغان ہائی سکول ہے۔ یہ دہلی کے بھوگل میں کرائے کی عمارت میں چل رہا ہے۔ وزارت خارجہ کے مطابق اسکول کے 300 طلباء کو بھارتی اسکولوں میں منتقل کیا جائے گا۔

افغان اسکول بند ہو سکتے ہیں
افغان اسکول بند ہو سکتے ہیں
author img

By

Published : Apr 15, 2023, 8:33 AM IST

نئی دہلی: قومی دارالحکومت دہلی میں رہنے والے افغان مہاجرین کے بچوں کے لیے بھوگل میں چلنے والا سید جمال الدین افغان ہائی اسکول بند ہونے کے دہانے پر ہے۔ 15 اگست 2021 کو جب امریکا افغانستان سے نکلا اور کابل طالبان کے کنٹرول میں آیا تو افغان حکومت کی جانب سے فنڈنگ ​​بھی بند ہوگیا۔ تب بھارت کی وزارت خارجہ نے اسکول کی مالی مدد کی اور اسکول کو بند ہونے سے بچایا۔ اب افغانستان میں طالبان کی حکومت نے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی لگاتے ہوئے اس اسکول کی پہچان منسوخ کردی ہے۔ اس لیے حکومت ہند کی وزارت خارجہ نے یہاں زیر تعلیم تقریباً 300 طالبات کو بھارتی بورڈز کے زیر انتظام اسکولز میں منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا ہے، تاہم اس کام میں زبان کی وجہ سے مشکل پیش آ سکتی ہے۔

افغانی طلبہ کے سامنے زبان کامسئلہ: زیر تعلیم طلبہ کے والدین کا کہنا ہے کہ اب تک ان کے بچوں نے افغانی زبان میں تعلیم حاصل کی ہے۔ انگریزی ایک مضمون کے طور پر پڑھائی جاتی ہے۔ ایسے میں اچانک انہیں انگلش میڈیم میں منتقل کرنے سے ان کے سامنے زبان کا مسئلہ پیدا ہو گا اور وہ انگریزی میں دوسرے مضامین کو اتنی آسانی سے نہیں سمجھ پائیں گے۔ والدین کا کہنا ہے کہ انگلش کے مضامین پڑھنے اور انگلش میڈیم سے دوسرے مضامین پڑھنے میں بہت فرق ہے۔

اسکول کی مدد سماجی تنظیموں پر منحصر: افغان مہاجرین کے لیے کام کرنے والے ایک افغان سماجی کارکن کا کہنا تھا کہ وہ اسکول چلانے کی کوشش کر رہے ہیں اگر بھارتی حکومت فنڈز فراہم نہیں کرتی تو کچھ سماجی تنظیموں کی جانب سے مدد لی جاتی ہے۔ اس کے لیے وہ سماجی تنظیموں سے مسلسل رابطہ کر رہے ہیں۔ امید ہے کہ جلد ہی کہیں سے فنڈنگ ​​کا بندوبست ہو جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ سماجی تنظیموں کے ذمہ داران سے رابطوں کے علاوہ وہ وزارت خارجہ، حکومت ہند کے حکام سے بھی رابطے میں ہیں اور اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اسکول بند نہ ہو۔

افغانی اسکول 1994 میں شروع ہوا: دوسری جانب دہلی یونیورسٹی سے بی ایس سی آنرز (نرسنگ) کرنے والی ایک افغان طالبہ نے بتایا کہ افغان اسکول میں اسے اپنے ملک کی زبان، فن اور ثقافت اور اپنے ملک کی تاریخ پڑھائی جاتی ہے۔ بھارتی اسکول میں داخلے کے بعد افغانبچوں کو یہ سب کچھ سیکھنے کو نہیں ملے گا، اس لیے اس اسکول کو بند ہونے سے بچانے کے لیے حکومت ہند اور مختلف سماجی تنظیموں کی مدد کی ضرورت ہے۔ اس اسکول میں کلاس 1 سے 12 تک کے طلباء ہیں۔ یہ سکول 1994 میں شروع ہوا تھا۔ یہ 2008 میں ایک پرائمری اسکول اور 2017 میں ایک ہائی اسکول بن گیا۔

مزید پڑھیں:Afghan School in Delhi: افغان طالب علموں کو ہندوستانی حکومت کا 'تحفہ'

مئی کے آخر تک عمارت کی تعمیر کی ہدایات: افغانستان میں اشرف غنی حکومت نے بھارت میں مقیم افغان مہاجرین کی درخواست پر اسکول کو فنڈز فراہم کرنے اور اسے تسلیم کرنا شروع کر دیا۔ اب طالبان حکومت نے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کے ساتھ ساتھ اس سکول کی تسلیم بھی منسوخ کر دی ہے جس کی وجہ سے یہ مسئلہ پیدا ہوا ہے۔ اسکول کے اساتذہ کو مئی کے آخر تک کرائے کی عمارت خالی کرنے کو کہا گیا ہے۔ طالبان سے پہلے، اسکول کو افغان حکومت نے تسلیم کیا تھا، جو بورڈ کی کلاسوں کے لیے سرٹیفکیٹ جاری کرتی تھی۔

نئی دہلی: قومی دارالحکومت دہلی میں رہنے والے افغان مہاجرین کے بچوں کے لیے بھوگل میں چلنے والا سید جمال الدین افغان ہائی اسکول بند ہونے کے دہانے پر ہے۔ 15 اگست 2021 کو جب امریکا افغانستان سے نکلا اور کابل طالبان کے کنٹرول میں آیا تو افغان حکومت کی جانب سے فنڈنگ ​​بھی بند ہوگیا۔ تب بھارت کی وزارت خارجہ نے اسکول کی مالی مدد کی اور اسکول کو بند ہونے سے بچایا۔ اب افغانستان میں طالبان کی حکومت نے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی لگاتے ہوئے اس اسکول کی پہچان منسوخ کردی ہے۔ اس لیے حکومت ہند کی وزارت خارجہ نے یہاں زیر تعلیم تقریباً 300 طالبات کو بھارتی بورڈز کے زیر انتظام اسکولز میں منتقل کرنے کا منصوبہ بنایا ہے، تاہم اس کام میں زبان کی وجہ سے مشکل پیش آ سکتی ہے۔

افغانی طلبہ کے سامنے زبان کامسئلہ: زیر تعلیم طلبہ کے والدین کا کہنا ہے کہ اب تک ان کے بچوں نے افغانی زبان میں تعلیم حاصل کی ہے۔ انگریزی ایک مضمون کے طور پر پڑھائی جاتی ہے۔ ایسے میں اچانک انہیں انگلش میڈیم میں منتقل کرنے سے ان کے سامنے زبان کا مسئلہ پیدا ہو گا اور وہ انگریزی میں دوسرے مضامین کو اتنی آسانی سے نہیں سمجھ پائیں گے۔ والدین کا کہنا ہے کہ انگلش کے مضامین پڑھنے اور انگلش میڈیم سے دوسرے مضامین پڑھنے میں بہت فرق ہے۔

اسکول کی مدد سماجی تنظیموں پر منحصر: افغان مہاجرین کے لیے کام کرنے والے ایک افغان سماجی کارکن کا کہنا تھا کہ وہ اسکول چلانے کی کوشش کر رہے ہیں اگر بھارتی حکومت فنڈز فراہم نہیں کرتی تو کچھ سماجی تنظیموں کی جانب سے مدد لی جاتی ہے۔ اس کے لیے وہ سماجی تنظیموں سے مسلسل رابطہ کر رہے ہیں۔ امید ہے کہ جلد ہی کہیں سے فنڈنگ ​​کا بندوبست ہو جائے گا۔ انہوں نے بتایا کہ سماجی تنظیموں کے ذمہ داران سے رابطوں کے علاوہ وہ وزارت خارجہ، حکومت ہند کے حکام سے بھی رابطے میں ہیں اور اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ اسکول بند نہ ہو۔

افغانی اسکول 1994 میں شروع ہوا: دوسری جانب دہلی یونیورسٹی سے بی ایس سی آنرز (نرسنگ) کرنے والی ایک افغان طالبہ نے بتایا کہ افغان اسکول میں اسے اپنے ملک کی زبان، فن اور ثقافت اور اپنے ملک کی تاریخ پڑھائی جاتی ہے۔ بھارتی اسکول میں داخلے کے بعد افغانبچوں کو یہ سب کچھ سیکھنے کو نہیں ملے گا، اس لیے اس اسکول کو بند ہونے سے بچانے کے لیے حکومت ہند اور مختلف سماجی تنظیموں کی مدد کی ضرورت ہے۔ اس اسکول میں کلاس 1 سے 12 تک کے طلباء ہیں۔ یہ سکول 1994 میں شروع ہوا تھا۔ یہ 2008 میں ایک پرائمری اسکول اور 2017 میں ایک ہائی اسکول بن گیا۔

مزید پڑھیں:Afghan School in Delhi: افغان طالب علموں کو ہندوستانی حکومت کا 'تحفہ'

مئی کے آخر تک عمارت کی تعمیر کی ہدایات: افغانستان میں اشرف غنی حکومت نے بھارت میں مقیم افغان مہاجرین کی درخواست پر اسکول کو فنڈز فراہم کرنے اور اسے تسلیم کرنا شروع کر دیا۔ اب طالبان حکومت نے لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی کے ساتھ ساتھ اس سکول کی تسلیم بھی منسوخ کر دی ہے جس کی وجہ سے یہ مسئلہ پیدا ہوا ہے۔ اسکول کے اساتذہ کو مئی کے آخر تک کرائے کی عمارت خالی کرنے کو کہا گیا ہے۔ طالبان سے پہلے، اسکول کو افغان حکومت نے تسلیم کیا تھا، جو بورڈ کی کلاسوں کے لیے سرٹیفکیٹ جاری کرتی تھی۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.