وفد کی قائد پروفیسر رادھا رمن چکرورتی نے کہا کہ جادو پور یونیورسٹی میں گزشتہ دنوں جو کچھ ہوا وہ افسوس ناک ہے۔اس سے ملک گیر شہرت یافتہ یونیورسٹی کی ساکھ کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
یونیورسٹی کے وائس چانسلر کا رول بہت ہی خراب تھا۔وہ یونیورسٹی کے طلباء کے گارجین کی حیثیت سے حالات پر کنٹرول کرسکتے تھے۔مگر انہوں نے ایسا نہیں کیا۔
پروفیسر چکرورتی نے کہا کہ میں بھی یونیورسٹی کا وائس چانسلر رہ چکی ہوں، ریاستی حکومت یونیورسٹی کے معاملات میں کبھی بھی مداخلت نہیں کرتی ہے تاہم انہوں نے حالات کو کنٹرول کرنے کیلئے پولس کو بھی طلب نہیں کیا۔
وائس چانسلر کو اخلاقی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے وائس چانسلر کے عہدہ سے استعفیٰ دیدینا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ یونیورسٹی میں تمام گروپ کو اپنی بات رکھنے کا حق ملنا چاہیے۔ہنگامہ کے دن یونیورسٹی میں موجود رہی اگنی مترا نے کہا کہ مرکزی وزیر بابل سپریہ ک ساتھ ان کے ساتھ بھی بدسلوکی کی گئی ااور گالیاں دی گئیں۔
جب کہ بعض طلباء نے الزام عاید کیا کہ اگنی مترا پال کے باؤنسروں نے پہلے طلباء کے ساتھ مارپیٹ کرنے کی کوشش کی۔اگنی مترا نے کہا کہ یہ الزامات بے بنیاد ہیں۔ان کے پاس کوئی بھی باڈی گارڈ نہیں ہے۔
نہ ہی پارٹی نے بارڈی گار ڈ دے رکھا ہے۔جب کہ بابل سپریہ کے پاس حکومت کے باڈی گارڈ موجود تھے۔
اگنی مترا نے جادو پور یونیورسٹی کے طلباء کے خلاف شکایت کراتے ہوئے کہا ہے کہ فیس پور گالیاں دی جارہی ہیں۔