ETV Bharat / state

Article 370 Hearing: یہ کہنا مشکل ہے کہ دفعہ 370کو کبھی بھی منسوخ نہیں کیا جا سکتا، سپریم کورٹ - ایڈوکیٹ ظفر شاہ

چیف جسٹس آف انڈیا کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بنچ - جس میں جسٹس ایس کے کول، سنجیو کھنہ، بی آر گاوائی اور سوریہ کانت شامل ہیں - دفعہ370 کی منسوخی کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت کر رہی ہے۔ جمعرات کو بھی سنوائی جاری رہے جس میں جموں و کشمیر کے سینئر وکیل ظفر شاہ نے اپنے دلائل اور اعتراضات سپریم کورٹ میں بیان کئے۔ ای ٹی وی بھارت کے سمیت سکسینہ کی رپورٹ۔

یہ کہنا مشکل ہے کہ دفعہ 370کو کبھی بھی منسوخ نہیں کیا جا سکتا، سپریم کورٹ
یہ کہنا مشکل ہے کہ دفعہ 370کو کبھی بھی منسوخ نہیں کیا جا سکتا، سپریم کورٹ
author img

By

Published : Aug 10, 2023, 8:09 PM IST

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعرات کو دفعہ 370کی منسوخی کے خلاف دائر کی گئی عرضیوں کی سماعت کے دوران مشاہدہ کیا کہ ’’جموں اور کشمیر کی خودمختاری مکمل طور پر بھارتی یونین میں ضم کر دی گئی ہے اور آئین میں مختلف پہلوؤں کی موجودگی کے باوجود یونین (آف انڈیا) کی خودمختاری اور سالمیت متاثر نہیں ہوتی ہے۔‘‘ سپریم کورٹ نے زبانی طور پر یہ بھی ریمارکس دیئے کہ ’’یہ کہنا مشکل ہے کہ دفعہ 370 کو کبھی بھی منسوخ نہیں کیا جا سکتا۔‘‘

چیف جسٹس آف انڈیا کی سربراہی میں پانچ ججوں کی آئینی بنچ جس میں جسٹس ایس کے کول، سنجیو کھنہ، بی آر گاوائی اور سوریہ کانت شامل ہیں، سابق ریاست جموں و کشمیر کو خصوصی آئینی حیثیت دینے والی آرٹیکل 370 کی منسوخی کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت کر رہی ہے۔ بنچ نے عرضی گزاروں میں سے ایک کی نمائندگی کرنے والے جموں و کشمیر کے سینئر ایڈوکیٹ ظفر شاہ کو بتایا کہ ’’آئین کا آرٹیکل 1 کہتا ہے کہ ہندوستان - 'ریاستوں کا اتحاد ہے اور اس میں ریاست جموں و کشمیر بھی شامل ہے، اور اس لحاظ سے (ہندوستان کی) خودمختاری مکمل ہے۔

چیف جسٹس نے کہا: ’’ہندوستان کے ساتھ خودمختاری کی کوئی بھی مشروط خودسپردگی نہیں۔ خودمختاری صحیح معنوں میں ہندوستان کے یونین کے ساتھ متصل ہو جانے کے بعد صرف قانون سازی کے لیے پابندی کا اطلاق باقی رہتا ہے، جو پارلیمنٹ کے اختیار میں ہے۔ چند پابندیاں جو باقی رہ جاتی ہیں۔۔۔۔‘‘

چیف جسٹس نے کہا کہ 1972 کی آئینی درخواست کے آرڈر میں ایک بہت ہی دلچسپ شق ہے، جو 1972 میں آئی، جب آرٹیکل 248 میں ریاست جموں و کشمیر کے حوالہ سے ترمیم کی گئی تھی اور 248 متبادل بنا (دیگر تمام ریاستوں کو قانون سازی کے اختیارات فراہم کرنے میں)۔ چیف جسٹس نے کہا، ’’اب اس (آرٹیکل) کی رو سے پارلیمنٹ کو ہندوستان کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کو مسترد کرنے، اس کی سالمیت پر سوال اٹھانے یا اس میں خلل ڈالنے والی سرگرمیوں کی روک تھام کے لئے کوئی بھی قانون بنانے کا خصوصی اختیار ہے۔ لہٰذا، 1972 کا حکم یہ بناتا ہے کہ… اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ خودمختاری صرف یونین آف انڈیا کو حاصل ہے۔ اس لیے انسٹرومنٹ آف ایکسیشن (1947) کے بعد خودمختاری کا کوئی نشان باقی نہیں رہا۔‘‘

انگریزی میں پڑھیں: Difficult to say Article 370 can never be abrogated, J&K’s sovereignty completely ceded to India: SC

بنچ نے کہا کہ آرٹیکل 248 اب بھی لاگو ہے، جیسا کہ یہ 5 اگست 2019 سے پہلے جموں و کشمیر پر لاگو ہوتا تھا اور اس میں ہندوستان کی خودمختاری کی بالکل واضح قبولیت شامل ہے۔ جسٹس کھنہ نے شاہ سے استفسار کیا ’’کون سا آئین برتر ہے، ہندوستان کا (یا جموں و کشمیر کاآئین)؟‘‘ شاہ نے جواب دیا، ’’یقینا، ہندوستانی آئین۔‘‘

واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے سے سپریم کورٹ میں دفعہ 370کی منسوخی کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت شروع ہوئی جو جمعرات کو بھی جاری رہی۔ جمعرات کو جموں و کشمیر کے سینئر ایڈوکیٹ ظفر شاہ نے اپنے دلائل سپریم کورٹ میں بیان کیے۔ قبل ازیں سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل نے بھی اپنے اعتراضات سپریم کورٹ کے سامنے پیش کیے۔ قابل ذکر ہے کہ پانچ اگست 2019کو بی جے پی حکومت نے جموں و کشمیر تنظیم نو قانون پارلیمنٹ میں پاس کرکے جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی آئینی حیثیت دفعہ 370کو منسوخ کر دیا۔ آرٹیکل کی منسوخی کے بعد کئی افراد، سیاسی تنظیموں نے اس کی کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضیاں دائر کیں۔ قریب چار برس تک اس معاملے پر مکمل خاموشی اختیار کرنے کے بعد سپریم کورٹ نے دو اگست 2023سے سبھی عرضیوں کی سماعت کا آغاز کیا۔

نئی دہلی: سپریم کورٹ نے جمعرات کو دفعہ 370کی منسوخی کے خلاف دائر کی گئی عرضیوں کی سماعت کے دوران مشاہدہ کیا کہ ’’جموں اور کشمیر کی خودمختاری مکمل طور پر بھارتی یونین میں ضم کر دی گئی ہے اور آئین میں مختلف پہلوؤں کی موجودگی کے باوجود یونین (آف انڈیا) کی خودمختاری اور سالمیت متاثر نہیں ہوتی ہے۔‘‘ سپریم کورٹ نے زبانی طور پر یہ بھی ریمارکس دیئے کہ ’’یہ کہنا مشکل ہے کہ دفعہ 370 کو کبھی بھی منسوخ نہیں کیا جا سکتا۔‘‘

چیف جسٹس آف انڈیا کی سربراہی میں پانچ ججوں کی آئینی بنچ جس میں جسٹس ایس کے کول، سنجیو کھنہ، بی آر گاوائی اور سوریہ کانت شامل ہیں، سابق ریاست جموں و کشمیر کو خصوصی آئینی حیثیت دینے والی آرٹیکل 370 کی منسوخی کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت کر رہی ہے۔ بنچ نے عرضی گزاروں میں سے ایک کی نمائندگی کرنے والے جموں و کشمیر کے سینئر ایڈوکیٹ ظفر شاہ کو بتایا کہ ’’آئین کا آرٹیکل 1 کہتا ہے کہ ہندوستان - 'ریاستوں کا اتحاد ہے اور اس میں ریاست جموں و کشمیر بھی شامل ہے، اور اس لحاظ سے (ہندوستان کی) خودمختاری مکمل ہے۔

چیف جسٹس نے کہا: ’’ہندوستان کے ساتھ خودمختاری کی کوئی بھی مشروط خودسپردگی نہیں۔ خودمختاری صحیح معنوں میں ہندوستان کے یونین کے ساتھ متصل ہو جانے کے بعد صرف قانون سازی کے لیے پابندی کا اطلاق باقی رہتا ہے، جو پارلیمنٹ کے اختیار میں ہے۔ چند پابندیاں جو باقی رہ جاتی ہیں۔۔۔۔‘‘

چیف جسٹس نے کہا کہ 1972 کی آئینی درخواست کے آرڈر میں ایک بہت ہی دلچسپ شق ہے، جو 1972 میں آئی، جب آرٹیکل 248 میں ریاست جموں و کشمیر کے حوالہ سے ترمیم کی گئی تھی اور 248 متبادل بنا (دیگر تمام ریاستوں کو قانون سازی کے اختیارات فراہم کرنے میں)۔ چیف جسٹس نے کہا، ’’اب اس (آرٹیکل) کی رو سے پارلیمنٹ کو ہندوستان کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت کو مسترد کرنے، اس کی سالمیت پر سوال اٹھانے یا اس میں خلل ڈالنے والی سرگرمیوں کی روک تھام کے لئے کوئی بھی قانون بنانے کا خصوصی اختیار ہے۔ لہٰذا، 1972 کا حکم یہ بناتا ہے کہ… اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہے کہ خودمختاری صرف یونین آف انڈیا کو حاصل ہے۔ اس لیے انسٹرومنٹ آف ایکسیشن (1947) کے بعد خودمختاری کا کوئی نشان باقی نہیں رہا۔‘‘

انگریزی میں پڑھیں: Difficult to say Article 370 can never be abrogated, J&K’s sovereignty completely ceded to India: SC

بنچ نے کہا کہ آرٹیکل 248 اب بھی لاگو ہے، جیسا کہ یہ 5 اگست 2019 سے پہلے جموں و کشمیر پر لاگو ہوتا تھا اور اس میں ہندوستان کی خودمختاری کی بالکل واضح قبولیت شامل ہے۔ جسٹس کھنہ نے شاہ سے استفسار کیا ’’کون سا آئین برتر ہے، ہندوستان کا (یا جموں و کشمیر کاآئین)؟‘‘ شاہ نے جواب دیا، ’’یقینا، ہندوستانی آئین۔‘‘

واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے سے سپریم کورٹ میں دفعہ 370کی منسوخی کو چیلنج کرنے والی درخواستوں کی سماعت شروع ہوئی جو جمعرات کو بھی جاری رہی۔ جمعرات کو جموں و کشمیر کے سینئر ایڈوکیٹ ظفر شاہ نے اپنے دلائل سپریم کورٹ میں بیان کیے۔ قبل ازیں سینئر ایڈوکیٹ کپل سبل نے بھی اپنے اعتراضات سپریم کورٹ کے سامنے پیش کیے۔ قابل ذکر ہے کہ پانچ اگست 2019کو بی جے پی حکومت نے جموں و کشمیر تنظیم نو قانون پارلیمنٹ میں پاس کرکے جموں و کشمیر کو حاصل خصوصی آئینی حیثیت دفعہ 370کو منسوخ کر دیا۔ آرٹیکل کی منسوخی کے بعد کئی افراد، سیاسی تنظیموں نے اس کی کے خلاف سپریم کورٹ میں عرضیاں دائر کیں۔ قریب چار برس تک اس معاملے پر مکمل خاموشی اختیار کرنے کے بعد سپریم کورٹ نے دو اگست 2023سے سبھی عرضیوں کی سماعت کا آغاز کیا۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.