مرکزی حکومت کی جانب سے لڑکیوں کی کم از کم شادی عمر 18 سال سے بڑھا کر 21 سال کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔
اس سلسلے میں ای ٹی وی بھارت نے ڈاکٹرز اور ماہرین سے گفتگو کی اور یہ سمجھنے کی کوشش کی کہ اس فیصلے سے نوزائیدہ اور زچگی کی شرح اموات پر کیا فرق پڑے گا۔
کیا اس فیصلے سے ریاست چھتیس گڑھ کی خواتین اور بیٹیوں کی زندگی میں اضافہ ہوگا؟
ریاست کے مختلف علاقوں کی لڑکیوں نے اس فیصلے کا خیرمقدم کیا ہے۔
بیشتر لوگوں کی رائے مرکزی حکومت کے حق میں دیکھی گئی ہے۔
ماہر امراض خاتون آشا جین کا کہنا ہے کہ حکومت کا فیصلہ وقت کی ضرورت ہے۔
اھوں نے کہا کہ زیادہ تر لڑکیاں جو تھوڑا پڑھ لکھ لیتی ہیں، وہ 23 یا 24 برس کے شادی کرتی ہیں۔یہ فیصلہ عوامی جذبات کا احترام ہے۔
آشا جین نے کہا کہ لڑکیوں کی ہڈیوں اور جسم کی مکمل نشوونما 24 اور 25 سال کی عمر تک ہے۔
اس کے علاوہ بچوں کی نشوونما میں بھی مسائل ہیں۔
ایسی صورتحال میں حکومت کے فیصلے کے مثبت اثرات دیکھنے کو ملیں گے۔
چھتیس گڑھ میں بچوں کی اموات کی شرح 39 ہے۔
یہ بھی پڑھیے:۔۔۔ جب دہلی سیریل دھماکے سے لرز اٹھی تھی
ایک اعداد و شمار کے مطابق 1000 نوزائیدہ بچوں میں سے 39 بچے مر جاتے ہیں۔ نوزائیدہ اموات کے لحاظ سے چھتیس گڑھ ملک میں پانچویں نمبر پر ہے۔
ریاست کے شہری علاقوں میں یہ تعداد 31 فی 1 ہزار ہے۔ جبکہ دیہی علاقوں میں 41 ہیں۔
ریاست میں زچگی کی شرح اموات فی ایک لاکھ 173 ہے جو ملک کی شرح 130 سے کہیں زیادہ ہے۔
سنہ 2011 میں ریاست میں ہر ایک لاکھ 221 ماؤں کی موت ہو رہی تھی۔
ملک بھر میں فی لاکھ 122 ماؤں کی موت ہوتی ہے۔
پیدائش کے وقت جنسی تناسب میں چھتیس گڑھ ملک میں سرفہرست ہے۔
ریاست میں دیگر ریاستوں اور مرکزی علاقوں کے نسبت جنسی تناسب بہت بہتر ہے۔
سال 2018 کے اعداد و شمار چند ماہ قبل جاری کیے گئے ہیں۔
چھتیس گڑھ میں 1000 مردوں کے مقابلے 958 خواتین ہیں۔
قبائلی اکثریتی ریاست چھتیس گڑھ ریاست میں خواتین معاشرتی سطح پر دوسری ریاستوں کے مقابلے میں بہت بہتر پوزیشن میں ہیں۔
امید ہے کہ خواتین کی حالت کو بہتر بنانے کے لئے بنائے جانے والے اس قانون سے ریاست کی حالت بہتر ہوسکتی ہے۔