اب یہ سوال اٹھتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ بی جے پی کو سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو بھوپال پارلیمانی سیٹ سے امیدوار کے طور پر اتارنا پڑا۔
بھوپال سیٹ پر تین دہائی سے بی جے پی کا قبضہ ہے لیکن مدھیہ پردیش میں 2018 میں ہوئے اسمبلی انتخابات میں کانگریس نے جیت درج کی اور بھوپال کے 8 میں سے 3 اسمبلی حلقوں میں بھی کانگریس نے جیت درج کی۔ اس میں بھوپال (نارتھ)، بھوپال(سینٹرل) اور بھوپال(ساؤتھ ۔ ویسٹ) کی نشستیں شامل ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ بی جے پی کو خود اپنے ترقیاتی کاموں پر اعتماد نہیں رہا ہے یا پھر ان چہروں اور رہنماؤں پر اعتماد نہیں ہے جنہوں نے تین دہائیوں تک بھوپال پر بی جے پی کی جیت کا پرچم لہرایا ہے۔
کہیں نہ کہیں بی جے پی کے اس فیصلہ نے ملک کے 'پردھان سیوک' یعنی وزیراعظم نریندر مودی کے کرشمے اور ملک میں مودی لہر کا جو ہوّا کھڑا کیا جا رہا ہے، پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا ہے؟
یہی وجہ ہے کہ بی جے پی نے مالیگاؤں بم دھماکہ کیس میں ملوث خاتون سادھوی پرگیہ سنگھ کو انتخابی میدان میں اتار کر ایک نئی بحث چھیڑنے کی کوشش کی ہے تاکہ مذہبی خطوط پر ووٹوں کی تقسیم کو ممکن بنایا جا سکے۔
مگر کیا ایک جمہوری ملک میں اس فیصلے کی حوصلہ افزائی کی جائے گی یا پھر حوصلہ شکنی! یہ تصویر 23 مئی کو صاف ہو گی۔
اور اس کے ساتھ ہی یہ بھی واضح ہو جائے گا کہ ملک میں جمہوریت کا مستقبل کیا ہوگا؟
سادھوی پرگیہ سنگھ کون ہے؟
ریاست مہاراشٹر کے مالیگاؤں شہر میں 2008 میں ایک مسجد کے باہر دھماکہ ہوا تھا۔ اس دھماکے میں 6 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔ اے ٹی ایس کے چیف آنجہانی ہیمنت کرکرے کی سربراہی میں اس معاملے کی تحقیقات کا آغاز کیا گیا۔ دوران تحقیقات یہ انکشاف ہوا کہ بم دھماکے کے لیے جو موٹر سائیکل استعمال کی گئی تھی، وہ سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر کی تھی اور اس نے کم ہلاکت ہونے پر افسوس کیا تھا۔ سادھوی کو 2017 میں مشروط ضمانت پر رہا کیا گیا ہے اور وہ اس معاملے میں ہنوز ملزمہ ہیں۔ جبکہ یہ دعویٰ بھی کیا جا رہا ہے کہ انہیں اس معاملے میں کلین چٹ مل گئی ہے۔
ہے
اب یہ سوال اٹھتا ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ بی جے پی کو سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر کو بھوپال پارلیمانی سیٹ سے امیدوار کے طور پر اتارنا پڑا۔
بھوپال سیٹ پر تین دہائی سے بی جے پی کا قبضہ ہے لیکن مدھیہ پردیش میں 2018 میں ہوئے اسمبلی انتخابات میں کانگریس نے جیت درج کی اور بھوپال کے 8 میں سے 3 اسمبلی حلقوں میں بھی کانگریس نے جیت درج کی۔ اس میں بھوپال (نارتھ)، بھوپال(سینٹرل) اور بھوپال(ساؤتھ ۔ ویسٹ) کی نشستیں شامل ہیں۔
اس کا مطلب یہ ہے کہ بی جے پی کو خود اپنے ترقیاتی کاموں پر اعتماد نہیں رہا ہے یا پھر ان چہروں اور رہنماؤں پر اعتماد نہیں ہے جنہوں نے تین دہائیوں تک بھوپال پر بی جے پی کی جیت کا پرچم لہرایا ہے۔
کہیں نہ کہیں بی جے پی کے اس فیصلہ نے ملک کے 'پردھان سیوک' یعنی وزیراعظم نریندر مودی کے کرشمے اور ملک میں مودی لہر کا جو ہوّا کھڑا کیا جا رہا ہے، پر بھی سوالیہ نشان لگا دیا ہے؟
یہی وجہ ہے کہ بی جے پی نے مالیگاؤں بم دھماکہ کیس میں ملوث خاتون سادھوی پرگیہ سنگھ کو انتخابی میدان میں اتار کر ایک نئی بحث چھیڑنے کی کوشش کی ہے تاکہ مذہبی خطوط پر ووٹوں کی تقسیم کو ممکن بنایا جا سکے۔
مگر کیا ایک جمہوری ملک میں اس فیصلے کی حوصلہ افزائی کی جائے گی یا پھر حوصلہ شکنی! یہ تصویر 23 مئی کو صاف ہو گی۔
اور اس کے ساتھ ہی یہ بھی واضح ہو جائے گا کہ ملک میں جمہوریت کا مستقبل کیا ہوگا؟
سادھوی پرگیہ سنگھ کون ہے؟
ریاست مہاراشٹر کے مالیگاؤں شہر میں 2008 میں ایک مسجد کے باہر دھماکہ ہوا تھا۔ اس دھماکے میں 6 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوئے تھے۔ اے ٹی ایس کے چیف آنجہانی ہیمنت کرکرے کی سربراہی میں اس معاملے کی تحقیقات کا آغاز کیا گیا۔ دوران تحقیقات یہ انکشاف ہوا کہ بم دھماکے کے لیے جو موٹر سائیکل استعمال کی گئی تھی، وہ سادھوی پرگیہ سنگھ ٹھاکر کی تھی اور اس نے کم ہلاکت ہونے پر افسوس کیا تھا۔ سادھوی کو 2017 میں مشروط ضمانت پر رہا کیا گیا ہے اور وہ اس معاملے میں ہنوز ملزمہ ہیں۔ جبکہ یہ دعویٰ بھی کیا جا رہا ہے کہ انہیں اس معاملے میں کلین چٹ مل گئی ہے۔
ہے