ETV Bharat / state

ٹوپی پر ڈیزائن کرنے والی خواتین، مناسب مزدوری نہیں ملنے سے مایوس

گیا ضلع کے ٹنکوپا بلاک میں واقع ترلوکی چک گاؤں کی مسلم خواتین کے لیے ٹوپی پر ڈیزائن بنانا ایک بہترین ذریعہ معاش ہوگیا ہے۔ ہاتھ سے خواتین ٹوپی پر ڈیزائن کرنے کے ساتھ گل بوٹے ٹانکتی ہیں۔

women designing caps
ٹوپی پر ڈیزائن کرتی خواتین
author img

By

Published : Jul 27, 2021, 7:41 PM IST

Updated : Jul 27, 2021, 7:49 PM IST

مسلم خواتین کے لیے اس کے ذریعے گھر بیٹھے آمدنی کا بہتریں ذریعہ ہوگیا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ ہر طرح کی ٹوپی اور ہینڈ بیگ پر خواتین کڑھائی کرتی ہیں۔ بالخصوص گیا سے مینوفیکچر ہونے والی " پلے کی ٹوپی" جو خانقاہوں اور عام مسلمانوں سمیت شادیوں اور سیاسی رہنماؤں کی ملن تقریب میں خوب استعمال ہوتی ہیں اور پہنی جاتی ہیں۔ اس " پلے والی ٹوپی" کو مسلم خواتین ہی تیار کرتی ہیں۔

دیکھیں ویڈیو
women designing caps
ٹوپی

دو سو مکانات پر واقع ہے گاؤں ترلوکی چک گاؤں

دو سو مکانات پر واقع اس گاؤں کے ہر گھر کی عورتیں ان میں آٹھ سال کی بچی سے لے کر 80 برس کی خاتون سبھی ٹوپی بنانے میں شامل ہیں، حالانکہ یہاں کی خواتین کے ہنر کی نہ تو قدر کی گئی اور نہ ہی ان کی پہچان ضلع سے باہر بن سکی جس کا ملال ان خواتین کو بھی ہے۔

women designing caps
ٹوپی پر ڈیزائن کرتی خواتین

قریب 30 برس پہلے شہر گیا کی ایک خاتون نے گاؤں پہنچ کر یہاں کی خواتین کو تربیت دے کر ٹوپی بنانے کے کام کو شروع کیا تھا جو آج تک جاری ہے، لیکن کورونا وبا کی وجہ سے گزشتہ دو برسوں سے ٹوپی کا کاروبار بھی متاثر ہوا ہے۔

women designing caps
ٹوپی پر ڈیزائن

گاؤں میں گھروں کے باہر خالی اوقات میں خواتین پانچ دس کی تعداد میں ایک ساتھ بیٹھ کر ٹوپی پر سوئی دھاگے سے کڑھائی وسلائی کرتی ہیں، یہاں کی زیادہ تر عورتیں پڑھی لکھی نہیں ہیں تاہم وہ گھر کے کام کاج کی ذمہ داریوں کو بخوبی انجام دینے کے ساتھ کنبے کی آمدنی کے ذرائع بڑھانے کے لیے مردوں کے شانہ بشانہ ہیں۔

women designing caps
ٹوپی پر ڈیزائن کرتی خواتین

ایک خاتون روزانہ 20 سے 40 ٹوپیوں پر کڑھائی اور سلائی و گل بوٹے ٹانکنے کے کام کرلیتی ہیں۔ حالانکہ باریک بینی والی اس کاریگری میں ان کی مزدوری انتہائی کم ہے۔

women designing caps
ٹوپی پر ڈیزائن

بیس ٹوپی کی ایک " کوڑی" ہوتی ہے جس کے عوض میں انہیں سولہ روپے سے 25 روپے ملتے ہیں۔ گھر کی اگر پانچ عورتیں بناتی ہیں تو انہیں 10 ہزار روپے سے 20 ہزار روپے کی آمدنی ماہانہ ہوجاتی ہے۔

البتہ ایک ٹوپی کی مزدوری کے اعتبار سے دیکھا جائے تو صرف اسی پیسے سے لیکر بیس پیسے ملتے ہیں جو آج کے وقت میں کافی کم ہیں۔

گھر بیٹھے کام ملنا اچھا ہے

ٹوپی پر کڑھائی و گل بوٹے ٹانکنے کے کام کرنے والی خواتین نے ای ٹی وی بھارت سے کہا کہ کہ مزدوری تو کم ہے تاہم خوشی اس بات کی ہے کہ گھر بیٹھے ان کے پاس آمدنی کا ذریعہ ہے۔ انہیں اس کام کے لیے کہیں باہر نہیں جانا پڑتا، ٹوپی کی تجارت کرنے والے کپڑا اور دھاگا ان کے گھر پر لاکر دستیاب کراتے ہیں اور ہفتے میں ایک مرتبہ ان کی مزدوری دیکر ٹوپی لے کر جاتے ہیں۔

حالانکہ انہیں ملال اس بات کا ہے کہ ان کے کام کی پہچان باہر تک نہیں ہوسکی۔ اگر یہاں ٹوپی کی صنعت کے لیے وسائل دستیاب کرائے جائیں تو بڑے پیمانے پر کاروبار ہوسکتا ہے کیونکہ یہ ٹوپی ملک کی مختلف ریاست تک جاتی ہے۔

رمضان اور تہواروں کے موقع پر گیا کی پلے والی ٹوپی بنگلہ دیش، انڈونیشیا سمیت کئی ملکوں میں بھی سپلائی ہوتی ہے۔ گھر کے باہر بیٹھ کر کام کررہی 80 سال کی بزرگ خاتون سائرہ خاتون کہتی ہیں کہ وہ 20 سالوں سے اس کام کو کررہی ہیں اور انہیں اس پر فخر ہے کہ اس عمر میں بھی وہ کسی کی محتاج نہیں ہیں بلکہ اپنی کفالت خود کرسکتی ہیں۔

سائرہ خاتون کہتی ہیں یہ جذبہ جب تک بینائی نِگاہ ہے قائم رہے گا، ان کا محنت کرنا، اپنا کام خود کرنا شرمندگی نہیں ہے۔ ہاں یہ کہ محنت کے بدلے مزدوری پوری نہیں ہے۔

ایک اور خاتون مبینہ خاتون کہتی ہیں کہ یہ ایک بہترین ذریعہ معاش ہے اور سب سے اچھی بات یہ ہے کہ گھر پر رہ کر اس کام کو انجام دینا ہے۔ مزدوری تو کم ہے تاہم بڑے پیمانے پر صنعتی ترقی کی جائے اور وسائل دستیاب کرائے جائیں تو بہتر ریزلٹ ہوگا۔ افسانہ خاتون کا بھی اس بات اتفاق ہے کہ گھر بیٹھے روز گار تو ہے لیکن اس میں وسعت پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔

گاؤں کے محمد مبین اپنے گھر کی عورتوں کے اس کام کی سراہنا کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خالی وقت کا اچھا استعمال ہے، مردوں کو گھر بار چلانے میں مدد ملتی ہے۔ عورتیں اپنی ضروریات خود ہی پورا کرلیتی ہیں۔ ہر گھر میں یہ کام ہوتا ہے۔

ٹنکوپا بلاک کے سماجی کارکن نند لال مانجھی کہتے ہیں کہ حکومت کو چاہیے کہ یہاں کی خواتین کو مالی امداد پہنچاکر اس کام کے دائرے کو بڑھائے، کیونکہ یہاں کے علاوہ کہیں دوسری جگہ پر اس ٹوپی کا کام نہیں ہوتا ہے۔

گاوں میں بنیادی سہولیات کی فراہمی نہیں ہے، تعلیم اور مالی طور پر گاؤں کمزور ہے۔ مردوں میں بے روزگاری زیادہ ہے ایسے میں یہ کام گھر بار چلانے کے لیے یہ ایک بڑا سہارا ہے۔

نند لال مانجھی کہتے ہیں کہ ایک تو روز گار نہیں ہے اگر کسی جگہ پر اس کے امکانات ہیں تو حکومت وسائل کی کمی کو دور کرے۔ یہ گاوں ٹوپی مینوفیکچرنگ کا بڑا ذریعہ بن سکتا ہے کیونکہ یہ گاؤں ریلوے لائن سے جڑا ہوا ہے۔ ٹنکوپا ریلوے اسٹیشن سے متصل ہے اور سڑک بھی اچھی ہے۔

خواتین کے لیے حکومت کی جو اسکیمیں اس کو یہاں تک پہنچانے کی ضرورت ہے اور اس کے تشہیر اور برانڈنگ حکومت کرائے۔

وہیں شہر گیا میں واقع تھوک وخردہ ٹوپی کے تاجر محمد اشفاق کہتے ہیں کہ خواتین ہی اس ٹوپی کو تیار کرتی ہیں۔ سوتی کے پتلے کپڑے، دھاگہ خواتین کو دیے جاتے ہیں اور پھر وہ اسکی کٹنگ، سلائی اور کڑھائی کے ساتھ گل بوٹے ٹانکتی ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ مناسب مزدوری نہیں ملتی ہے لیکن اسکی وجہ یہ ہے کہ اسکے لیے کوئی سسٹم تیار نہیں ہے۔ حالانکہ پلے والی ٹوپی کے علاوہ دوسری ٹوپی پر بھی خواتین پھول پتی ڈیزائن کرتی ہیں، لیکن پلے والی ٹوپی اس لیے خاص ہے کہ کیونکہ یہ نوابوں کی پہچان ہے، آج شادیوں اور رہنماؤں کی ملن پارٹی میں یہی ٹوپی پہنی جاتی ہے اس کو پہننے والوں کی تعداد مسلمانوں کی زیادہ ہے لیکن اسے سبھی برادری وفرقے کے لوگ پہنتے ہیں۔

مزید پڑھیں:مالیگاؤں: گھریلو صنعت کی پیداوار املی اور پودینے کی چٹنی کی مقبولیت

واضح رہے کہ ایک اندازے کے مطابق اس ٹوپی کا سالانہ کاروبار کروڑوں روپے تک کا ہے۔ رمضان میں اس کی مینو فیکچرنگ بڑھ جاتی ہے۔ گیا سے باہر اس ٹوپی کی پہچان خانقاہی اور نوابی ٹوپی کے طور پر ہوتی ہے۔ ترلوکی چک میں ہر طرح کی ٹوپی پر ورک ہوتا ہے اور یہ سلسلہ قریب 30 برسوں سے جاری ہے۔

مسلم خواتین کے لیے اس کے ذریعے گھر بیٹھے آمدنی کا بہتریں ذریعہ ہوگیا ہے۔ خاص بات یہ ہے کہ ہر طرح کی ٹوپی اور ہینڈ بیگ پر خواتین کڑھائی کرتی ہیں۔ بالخصوص گیا سے مینوفیکچر ہونے والی " پلے کی ٹوپی" جو خانقاہوں اور عام مسلمانوں سمیت شادیوں اور سیاسی رہنماؤں کی ملن تقریب میں خوب استعمال ہوتی ہیں اور پہنی جاتی ہیں۔ اس " پلے والی ٹوپی" کو مسلم خواتین ہی تیار کرتی ہیں۔

دیکھیں ویڈیو
women designing caps
ٹوپی

دو سو مکانات پر واقع ہے گاؤں ترلوکی چک گاؤں

دو سو مکانات پر واقع اس گاؤں کے ہر گھر کی عورتیں ان میں آٹھ سال کی بچی سے لے کر 80 برس کی خاتون سبھی ٹوپی بنانے میں شامل ہیں، حالانکہ یہاں کی خواتین کے ہنر کی نہ تو قدر کی گئی اور نہ ہی ان کی پہچان ضلع سے باہر بن سکی جس کا ملال ان خواتین کو بھی ہے۔

women designing caps
ٹوپی پر ڈیزائن کرتی خواتین

قریب 30 برس پہلے شہر گیا کی ایک خاتون نے گاؤں پہنچ کر یہاں کی خواتین کو تربیت دے کر ٹوپی بنانے کے کام کو شروع کیا تھا جو آج تک جاری ہے، لیکن کورونا وبا کی وجہ سے گزشتہ دو برسوں سے ٹوپی کا کاروبار بھی متاثر ہوا ہے۔

women designing caps
ٹوپی پر ڈیزائن

گاؤں میں گھروں کے باہر خالی اوقات میں خواتین پانچ دس کی تعداد میں ایک ساتھ بیٹھ کر ٹوپی پر سوئی دھاگے سے کڑھائی وسلائی کرتی ہیں، یہاں کی زیادہ تر عورتیں پڑھی لکھی نہیں ہیں تاہم وہ گھر کے کام کاج کی ذمہ داریوں کو بخوبی انجام دینے کے ساتھ کنبے کی آمدنی کے ذرائع بڑھانے کے لیے مردوں کے شانہ بشانہ ہیں۔

women designing caps
ٹوپی پر ڈیزائن کرتی خواتین

ایک خاتون روزانہ 20 سے 40 ٹوپیوں پر کڑھائی اور سلائی و گل بوٹے ٹانکنے کے کام کرلیتی ہیں۔ حالانکہ باریک بینی والی اس کاریگری میں ان کی مزدوری انتہائی کم ہے۔

women designing caps
ٹوپی پر ڈیزائن

بیس ٹوپی کی ایک " کوڑی" ہوتی ہے جس کے عوض میں انہیں سولہ روپے سے 25 روپے ملتے ہیں۔ گھر کی اگر پانچ عورتیں بناتی ہیں تو انہیں 10 ہزار روپے سے 20 ہزار روپے کی آمدنی ماہانہ ہوجاتی ہے۔

البتہ ایک ٹوپی کی مزدوری کے اعتبار سے دیکھا جائے تو صرف اسی پیسے سے لیکر بیس پیسے ملتے ہیں جو آج کے وقت میں کافی کم ہیں۔

گھر بیٹھے کام ملنا اچھا ہے

ٹوپی پر کڑھائی و گل بوٹے ٹانکنے کے کام کرنے والی خواتین نے ای ٹی وی بھارت سے کہا کہ کہ مزدوری تو کم ہے تاہم خوشی اس بات کی ہے کہ گھر بیٹھے ان کے پاس آمدنی کا ذریعہ ہے۔ انہیں اس کام کے لیے کہیں باہر نہیں جانا پڑتا، ٹوپی کی تجارت کرنے والے کپڑا اور دھاگا ان کے گھر پر لاکر دستیاب کراتے ہیں اور ہفتے میں ایک مرتبہ ان کی مزدوری دیکر ٹوپی لے کر جاتے ہیں۔

حالانکہ انہیں ملال اس بات کا ہے کہ ان کے کام کی پہچان باہر تک نہیں ہوسکی۔ اگر یہاں ٹوپی کی صنعت کے لیے وسائل دستیاب کرائے جائیں تو بڑے پیمانے پر کاروبار ہوسکتا ہے کیونکہ یہ ٹوپی ملک کی مختلف ریاست تک جاتی ہے۔

رمضان اور تہواروں کے موقع پر گیا کی پلے والی ٹوپی بنگلہ دیش، انڈونیشیا سمیت کئی ملکوں میں بھی سپلائی ہوتی ہے۔ گھر کے باہر بیٹھ کر کام کررہی 80 سال کی بزرگ خاتون سائرہ خاتون کہتی ہیں کہ وہ 20 سالوں سے اس کام کو کررہی ہیں اور انہیں اس پر فخر ہے کہ اس عمر میں بھی وہ کسی کی محتاج نہیں ہیں بلکہ اپنی کفالت خود کرسکتی ہیں۔

سائرہ خاتون کہتی ہیں یہ جذبہ جب تک بینائی نِگاہ ہے قائم رہے گا، ان کا محنت کرنا، اپنا کام خود کرنا شرمندگی نہیں ہے۔ ہاں یہ کہ محنت کے بدلے مزدوری پوری نہیں ہے۔

ایک اور خاتون مبینہ خاتون کہتی ہیں کہ یہ ایک بہترین ذریعہ معاش ہے اور سب سے اچھی بات یہ ہے کہ گھر پر رہ کر اس کام کو انجام دینا ہے۔ مزدوری تو کم ہے تاہم بڑے پیمانے پر صنعتی ترقی کی جائے اور وسائل دستیاب کرائے جائیں تو بہتر ریزلٹ ہوگا۔ افسانہ خاتون کا بھی اس بات اتفاق ہے کہ گھر بیٹھے روز گار تو ہے لیکن اس میں وسعت پیدا کرنے کی کوشش کی جائے۔

گاؤں کے محمد مبین اپنے گھر کی عورتوں کے اس کام کی سراہنا کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خالی وقت کا اچھا استعمال ہے، مردوں کو گھر بار چلانے میں مدد ملتی ہے۔ عورتیں اپنی ضروریات خود ہی پورا کرلیتی ہیں۔ ہر گھر میں یہ کام ہوتا ہے۔

ٹنکوپا بلاک کے سماجی کارکن نند لال مانجھی کہتے ہیں کہ حکومت کو چاہیے کہ یہاں کی خواتین کو مالی امداد پہنچاکر اس کام کے دائرے کو بڑھائے، کیونکہ یہاں کے علاوہ کہیں دوسری جگہ پر اس ٹوپی کا کام نہیں ہوتا ہے۔

گاوں میں بنیادی سہولیات کی فراہمی نہیں ہے، تعلیم اور مالی طور پر گاؤں کمزور ہے۔ مردوں میں بے روزگاری زیادہ ہے ایسے میں یہ کام گھر بار چلانے کے لیے یہ ایک بڑا سہارا ہے۔

نند لال مانجھی کہتے ہیں کہ ایک تو روز گار نہیں ہے اگر کسی جگہ پر اس کے امکانات ہیں تو حکومت وسائل کی کمی کو دور کرے۔ یہ گاوں ٹوپی مینوفیکچرنگ کا بڑا ذریعہ بن سکتا ہے کیونکہ یہ گاؤں ریلوے لائن سے جڑا ہوا ہے۔ ٹنکوپا ریلوے اسٹیشن سے متصل ہے اور سڑک بھی اچھی ہے۔

خواتین کے لیے حکومت کی جو اسکیمیں اس کو یہاں تک پہنچانے کی ضرورت ہے اور اس کے تشہیر اور برانڈنگ حکومت کرائے۔

وہیں شہر گیا میں واقع تھوک وخردہ ٹوپی کے تاجر محمد اشفاق کہتے ہیں کہ خواتین ہی اس ٹوپی کو تیار کرتی ہیں۔ سوتی کے پتلے کپڑے، دھاگہ خواتین کو دیے جاتے ہیں اور پھر وہ اسکی کٹنگ، سلائی اور کڑھائی کے ساتھ گل بوٹے ٹانکتی ہیں۔ یہ صحیح ہے کہ مناسب مزدوری نہیں ملتی ہے لیکن اسکی وجہ یہ ہے کہ اسکے لیے کوئی سسٹم تیار نہیں ہے۔ حالانکہ پلے والی ٹوپی کے علاوہ دوسری ٹوپی پر بھی خواتین پھول پتی ڈیزائن کرتی ہیں، لیکن پلے والی ٹوپی اس لیے خاص ہے کہ کیونکہ یہ نوابوں کی پہچان ہے، آج شادیوں اور رہنماؤں کی ملن پارٹی میں یہی ٹوپی پہنی جاتی ہے اس کو پہننے والوں کی تعداد مسلمانوں کی زیادہ ہے لیکن اسے سبھی برادری وفرقے کے لوگ پہنتے ہیں۔

مزید پڑھیں:مالیگاؤں: گھریلو صنعت کی پیداوار املی اور پودینے کی چٹنی کی مقبولیت

واضح رہے کہ ایک اندازے کے مطابق اس ٹوپی کا سالانہ کاروبار کروڑوں روپے تک کا ہے۔ رمضان میں اس کی مینو فیکچرنگ بڑھ جاتی ہے۔ گیا سے باہر اس ٹوپی کی پہچان خانقاہی اور نوابی ٹوپی کے طور پر ہوتی ہے۔ ترلوکی چک میں ہر طرح کی ٹوپی پر ورک ہوتا ہے اور یہ سلسلہ قریب 30 برسوں سے جاری ہے۔

Last Updated : Jul 27, 2021, 7:49 PM IST
ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.