ETV Bharat / state

Will MIM be Able to Sustain its Existence in Bihar: کیا بہار میں ایم آئی ایم اپنے وجود کو برقرار رکھ پائے گی؟

author img

By

Published : Jul 4, 2022, 10:48 AM IST

ایم آئی ایم سے آر جے ڈی میں شامل ہونے والے باغی اراکین اسمبلی کا الزام ہے کہ پارٹی کے اندر ان کی بات نہیں سنی جا رہی تھی، قومی قیادت چونکہ ریاست بہار سے کئی ہزار کیلو میٹر کے فاصلے پر حیدر آباد میں واقع ہے، یہ فاصلہ آہستہ آہستہ ہماری فکر پر بھی حاوی ہوتا گیا، یہاں تک کہ قومی قیادت سے کسی مسئلے پر گفتگو کرنا جوئے شیر سے کم ثابت نہیں ہو رہا تھا۔ Will MIM be Able to Sustain its Existence in Bihar

کیا بہار میں ایم آئی ایم اپنے وجود کوبرقرار رکھ پائے گی؟
کیا بہار میں ایم آئی ایم اپنے وجود کوبرقرار رکھ پائے گی؟


پٹنہ: بہار کی سیاست میں اس وقت بھوچال آ گیا جب گزشتہ دنوں ایم آئی ایم کے پانچ میں سے چار اراکین اسمبلی آر جے ڈی میں شامل ہو گئے، حالانکہ گزشتہ چند ماہ سے قیاس آرائی کا دور جاری تھا جس پر اب مہر لگ چکی ہے. Four AIMIM MLAs Join RJD۔ ایم آئی ایم کے جن چار اراکین اسمبلی نے آر جے ڈی کا دامن تھاما ہے وہ سب بہار کے خطہ سیمانچل سے تعلق رکھتے ہیں، ان میں شاہنواز عالم جوکی ہاٹ ارریہ، سید رکن الدین بائیسی، اظہار اسفی کوچا دھامن، انظار نعیمی بہادر گنج شامل ہیں۔

باغی اراکین اسمبلی کا الزام ہے کہ پارٹی کے اندر ان کی بات نہیں سنی جا رہی تھی، قومی قیادت چونکہ ریاست بہار سے کئی ہزار کیلو میٹر کے فاصلے پر حیدر آباد میں واقع ہے، یہ فاصلہ آہستہ آہستہ ہماری فکر پر بھی حاوی ہوتا گیا، یہاں تک کہ قومی قیادت سے کسی مسئلے پر گفتگو کرنا جوئے شیر سے کم ثابت نہیں ہو رہا تھا، باغی اراکین اسمبلی کا کہنا ہے کہ ہم نے اپنی ناراضگی کا اظہار پارٹی کے دیگر اعلیٰ لیڈران سے کر دیا تھا مگر اس جانب سے کوئی پہل نہیں ہوئی اور ہم نے یہ فیصلہ لے لیا۔

اگر بہار میں ایم آئی ایم کے سیاسی کیریئر کی بات کریں تو سال 2015 میں اسدالدین اویسی نے بہار کی سیاست میں انٹری لی تھی، اس وقت قومی سطح پر اویسی مسلمانوں کے چہرہ کے طور پر دیکھا جانے لگا تھا، اویسی نے پورے ملک میں مسلم قیادت کی بحث چھیڑی اور دیگر طبقات کی طرح مسلم طبقہ کو بھی سیاست سے لیکر سرکاری نوکری و دیگر اداروں میں حصہ داری کی بات کی، بہار میں اویسی کا داخلہ سیمانچل کے ذریعہ ہوا چونکہ سیمانچل پورے بہار میں اکثریتی مسلم علاقہ کے طور پر جانا جاتا ہے، ارریہ، کٹیہار، کشن گنج اور پورنیہ اضلاع میں 70 فیصد سے زائد مسلمانوں کی آبادی ہے، اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اویسی نے 2015 کے اسمبلی کے انتخاب میں اپنے کئی امیدوار اتارے مگر سب ناکام ہوئے۔

ریاست بہار کے مسلمانوں کی رائے تھی کہ یہاں سیکولر پارٹی کے طور پر آر جے ڈی، جے ڈی یو اور کانگریس ہے، جو متحد ہو کر انتخابی میدان میں اترتی ہے مگر ایم آئی ایم کے آنے سے ووٹوں کا شیرازہ بکھرے گا. 2020 کے پھر انتخابی میدان میں ایم آئی ایم آئی اور سیمانچل سمیت اکثریتی مسلم علاقوں سے بیس امیدوار اتارے، جن میں سے پانچ کی کامیابی ہوئی. آمور اسمبلی حلقہ سے اخترالایمان نے جے ڈی یو کے صبا ظفر کو 52515 ووٹوں سے شکست دی، اسی طرح بہادر اسمبلی حلقہ سے انظار نعیمی نے وی آئی پی پارٹی کے لکھن لال پنڈت کو 45215، بائیسی اسمبلی حلقہ سے سید رکن الدین نے بی جے پی کے ونود کمار کو 16373، جوکی ہاٹ اسمبلی حلقہ سے شاہنواز عالم نے آر جے ڈی نے سرفراز عالم کو 7383 اور کوچا دھامن سے اظہار اسفی نے جے ڈی یو کے مجاہد عالم کو 36143 ووٹوں سے شکست دے کر فتح حاصل کی. 2020 کے انتخاب میں بہار سے کل 19 مسلم امیدواروں نے جیت درج کی تھی۔

مگر حالیہ واقعہ سے بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بہار میں ایم آئی ایم کے ذریعہ مسلم لیڈر شپ کو ختم کرنے کی کوشش تو نہیں ہے، 2020 کے بہار اسمبلی انتخاب میں مجلس کے قومی صدر اسدالدین اویسی نے سیمانچل میں پوری طاقت جھونک دی تھی، اویسی کا مقصد سیمانچل میں ترقی کے ساتھ ساتھ مسلم لیڈر شپ کو آگے بڑھانا تھا، اسی انتخاب میں ایم آئی ایم کی محنت رنگ لائی اور سیمانچل کے لوگوں نے اویسی پر بھروسہ کرتے ہوئے سیمانچل سے پانچ امیدواروں کو بہار اسمبلی پہنچا دیا، صوبہ کی سیاست میں ایم آئی ایم کی دستک کی گونج کافی دنوں تک سنائی دیتی رہی، اسمبلی کے اندر ایم آئی ایم کے ایم ایل اے سیمانچل کی بدحالی کے مدنظر خصوصی پیکیج کا مطالبہ کرنے لگے، مسلم مسائل پر حکومت کو گھیرنے لگی. حالانکہ اسدالدین اویسی اپنے مشن میں کامیاب ہو گئے تھے اور مستقبل کی سیاست کے لیے لائحہ عمل تیار کر رہے تھے۔

یہ حقیقت ہے کہ سیمانچل کی 24 اسمبلی نشست کے علاوہ بہار کے مسلم حلقوں میں ایم آئی ایم اپنی پارٹی کو مضبوط کرنے کی مہم میں جٹی تھی لیکن تب تک بہار کی سیاست میں کھیلا ہو گیا. تیجسوی یادو نے ایم آئی ایم کے چاروں ایم ایل اے کو توڑ کر اپنی پارٹی میں شامل کر لیا اور اسی کے ساتھ ایک بار پھر سے مسلم سیاست اور مسلم لیڈر شپ کا سوال ٹھنڈے بستہ میں چلا گیا۔ ایم آئی ایم کے ایم ایل اے کا آر جے ڈی میں ہو جانے کا سیدھا اثر سیمانچل کی سیاست پر پڑے گا، اگر صوبے میں سیاسی الٹ پھیر ہوتا ہے تو اس کا فائدہ اراکین اسمبلی کی تعداد زیادہ ہونے سے آر جے ڈی کو ملے گا، مگر سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ اتنا آسان نہیں رہے گا جتنا کہ دیکھنے میں لگ رہا ہے۔

دراصل ایم آئی ایم نے بہار کی سیاست میں مسلمانوں کو ایک راہ دکھائی تھی، آر جے ڈی کبھی ایم وائی کے پارٹی تھی لیکن اب وہ اے ٹو زیڈ کی پارٹی ہو گئی ہے۔ ریاست کا 17 فیصد مسلم ووٹر آج بھی آر جے ڈی کو قدیم فارمیٹ میں دیکھ رہا ہے، سیاست پر گہری نظر رکھنے والوں کا خیال ہے کہ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ مسلم سماج سیکولر کہی جانے والی پارٹیوں کو ووٹ تو کرتا ہے لیکن وہ خود اپنے سماج میں کسی کو لیڈر بنانا پسند نہیں کرتا، یہ وجہ ہے کہ بہار میں ایم آئی ایم کے ٹوٹنے کو اس نظریے سے بھی دیکھا جا رہا ہے کہ کیا مسلم لیڈر شپ کو ایم آئی ایم بہار میں آگے بڑھانے میں ناکام ہوگئی یا پھر ایم آئی ایم کو مسلم لیڈران نے دھوکا دے دیا۔

یہ بھی پڑھیں:


پٹنہ: بہار کی سیاست میں اس وقت بھوچال آ گیا جب گزشتہ دنوں ایم آئی ایم کے پانچ میں سے چار اراکین اسمبلی آر جے ڈی میں شامل ہو گئے، حالانکہ گزشتہ چند ماہ سے قیاس آرائی کا دور جاری تھا جس پر اب مہر لگ چکی ہے. Four AIMIM MLAs Join RJD۔ ایم آئی ایم کے جن چار اراکین اسمبلی نے آر جے ڈی کا دامن تھاما ہے وہ سب بہار کے خطہ سیمانچل سے تعلق رکھتے ہیں، ان میں شاہنواز عالم جوکی ہاٹ ارریہ، سید رکن الدین بائیسی، اظہار اسفی کوچا دھامن، انظار نعیمی بہادر گنج شامل ہیں۔

باغی اراکین اسمبلی کا الزام ہے کہ پارٹی کے اندر ان کی بات نہیں سنی جا رہی تھی، قومی قیادت چونکہ ریاست بہار سے کئی ہزار کیلو میٹر کے فاصلے پر حیدر آباد میں واقع ہے، یہ فاصلہ آہستہ آہستہ ہماری فکر پر بھی حاوی ہوتا گیا، یہاں تک کہ قومی قیادت سے کسی مسئلے پر گفتگو کرنا جوئے شیر سے کم ثابت نہیں ہو رہا تھا، باغی اراکین اسمبلی کا کہنا ہے کہ ہم نے اپنی ناراضگی کا اظہار پارٹی کے دیگر اعلیٰ لیڈران سے کر دیا تھا مگر اس جانب سے کوئی پہل نہیں ہوئی اور ہم نے یہ فیصلہ لے لیا۔

اگر بہار میں ایم آئی ایم کے سیاسی کیریئر کی بات کریں تو سال 2015 میں اسدالدین اویسی نے بہار کی سیاست میں انٹری لی تھی، اس وقت قومی سطح پر اویسی مسلمانوں کے چہرہ کے طور پر دیکھا جانے لگا تھا، اویسی نے پورے ملک میں مسلم قیادت کی بحث چھیڑی اور دیگر طبقات کی طرح مسلم طبقہ کو بھی سیاست سے لیکر سرکاری نوکری و دیگر اداروں میں حصہ داری کی بات کی، بہار میں اویسی کا داخلہ سیمانچل کے ذریعہ ہوا چونکہ سیمانچل پورے بہار میں اکثریتی مسلم علاقہ کے طور پر جانا جاتا ہے، ارریہ، کٹیہار، کشن گنج اور پورنیہ اضلاع میں 70 فیصد سے زائد مسلمانوں کی آبادی ہے، اسی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اویسی نے 2015 کے اسمبلی کے انتخاب میں اپنے کئی امیدوار اتارے مگر سب ناکام ہوئے۔

ریاست بہار کے مسلمانوں کی رائے تھی کہ یہاں سیکولر پارٹی کے طور پر آر جے ڈی، جے ڈی یو اور کانگریس ہے، جو متحد ہو کر انتخابی میدان میں اترتی ہے مگر ایم آئی ایم کے آنے سے ووٹوں کا شیرازہ بکھرے گا. 2020 کے پھر انتخابی میدان میں ایم آئی ایم آئی اور سیمانچل سمیت اکثریتی مسلم علاقوں سے بیس امیدوار اتارے، جن میں سے پانچ کی کامیابی ہوئی. آمور اسمبلی حلقہ سے اخترالایمان نے جے ڈی یو کے صبا ظفر کو 52515 ووٹوں سے شکست دی، اسی طرح بہادر اسمبلی حلقہ سے انظار نعیمی نے وی آئی پی پارٹی کے لکھن لال پنڈت کو 45215، بائیسی اسمبلی حلقہ سے سید رکن الدین نے بی جے پی کے ونود کمار کو 16373، جوکی ہاٹ اسمبلی حلقہ سے شاہنواز عالم نے آر جے ڈی نے سرفراز عالم کو 7383 اور کوچا دھامن سے اظہار اسفی نے جے ڈی یو کے مجاہد عالم کو 36143 ووٹوں سے شکست دے کر فتح حاصل کی. 2020 کے انتخاب میں بہار سے کل 19 مسلم امیدواروں نے جیت درج کی تھی۔

مگر حالیہ واقعہ سے بڑا سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا بہار میں ایم آئی ایم کے ذریعہ مسلم لیڈر شپ کو ختم کرنے کی کوشش تو نہیں ہے، 2020 کے بہار اسمبلی انتخاب میں مجلس کے قومی صدر اسدالدین اویسی نے سیمانچل میں پوری طاقت جھونک دی تھی، اویسی کا مقصد سیمانچل میں ترقی کے ساتھ ساتھ مسلم لیڈر شپ کو آگے بڑھانا تھا، اسی انتخاب میں ایم آئی ایم کی محنت رنگ لائی اور سیمانچل کے لوگوں نے اویسی پر بھروسہ کرتے ہوئے سیمانچل سے پانچ امیدواروں کو بہار اسمبلی پہنچا دیا، صوبہ کی سیاست میں ایم آئی ایم کی دستک کی گونج کافی دنوں تک سنائی دیتی رہی، اسمبلی کے اندر ایم آئی ایم کے ایم ایل اے سیمانچل کی بدحالی کے مدنظر خصوصی پیکیج کا مطالبہ کرنے لگے، مسلم مسائل پر حکومت کو گھیرنے لگی. حالانکہ اسدالدین اویسی اپنے مشن میں کامیاب ہو گئے تھے اور مستقبل کی سیاست کے لیے لائحہ عمل تیار کر رہے تھے۔

یہ حقیقت ہے کہ سیمانچل کی 24 اسمبلی نشست کے علاوہ بہار کے مسلم حلقوں میں ایم آئی ایم اپنی پارٹی کو مضبوط کرنے کی مہم میں جٹی تھی لیکن تب تک بہار کی سیاست میں کھیلا ہو گیا. تیجسوی یادو نے ایم آئی ایم کے چاروں ایم ایل اے کو توڑ کر اپنی پارٹی میں شامل کر لیا اور اسی کے ساتھ ایک بار پھر سے مسلم سیاست اور مسلم لیڈر شپ کا سوال ٹھنڈے بستہ میں چلا گیا۔ ایم آئی ایم کے ایم ایل اے کا آر جے ڈی میں ہو جانے کا سیدھا اثر سیمانچل کی سیاست پر پڑے گا، اگر صوبے میں سیاسی الٹ پھیر ہوتا ہے تو اس کا فائدہ اراکین اسمبلی کی تعداد زیادہ ہونے سے آر جے ڈی کو ملے گا، مگر سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ اتنا آسان نہیں رہے گا جتنا کہ دیکھنے میں لگ رہا ہے۔

دراصل ایم آئی ایم نے بہار کی سیاست میں مسلمانوں کو ایک راہ دکھائی تھی، آر جے ڈی کبھی ایم وائی کے پارٹی تھی لیکن اب وہ اے ٹو زیڈ کی پارٹی ہو گئی ہے۔ ریاست کا 17 فیصد مسلم ووٹر آج بھی آر جے ڈی کو قدیم فارمیٹ میں دیکھ رہا ہے، سیاست پر گہری نظر رکھنے والوں کا خیال ہے کہ عام طور پر دیکھا گیا ہے کہ مسلم سماج سیکولر کہی جانے والی پارٹیوں کو ووٹ تو کرتا ہے لیکن وہ خود اپنے سماج میں کسی کو لیڈر بنانا پسند نہیں کرتا، یہ وجہ ہے کہ بہار میں ایم آئی ایم کے ٹوٹنے کو اس نظریے سے بھی دیکھا جا رہا ہے کہ کیا مسلم لیڈر شپ کو ایم آئی ایم بہار میں آگے بڑھانے میں ناکام ہوگئی یا پھر ایم آئی ایم کو مسلم لیڈران نے دھوکا دے دیا۔

یہ بھی پڑھیں:

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.