بھارت کا بینکنگ سیکٹر بحران کا شکار ہے، پہلی مار تو پرانی ہے جس تعلق سے گذشتہ برس ایک عرضی پر سماعت کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے ریزروبینک آف انڈیا (آربی آئی) کوسرزنش کی تھی۔ عدالت عظمی کا کہنا ہے کہ صاحبِ ثروت کروڑوں روپے کا قرض لیکر دیوالیہ ہوجاتے ہیں جن کے خلاف بینک کچھ نہیں کرپاتے، دوسری طرف غریب کسان اگر معمولی قرض ادا کرنہ پائیں تو بینک انتظامیہ ان کی املاک پر قبضہ کرلیتی ہے، اس صورت حال میں آربی آئی کا کام بینکوں پر نظر رکھنا بھی ہے اور اسے یہ علم بھی ہونا چاہئے کہ بینک عوام کا جمع جو پیسہ قرض کی شکل میں دے رہی ہے وہ وصول ہورہا ہے یا نہیں۔
عدالت نے مرکزی حکومت سے سوال بھی کیا تھا کہ قرض لینے والوں سے رقم وصول کرنے کیلئے وہ کیا اقدام کررہی ہے۔
ملک کے ممتاز وکیل پرشانت بھوشن کی عرضداشت پر سماعت کے دوران عدالت کو آربی آئی اور حکومت ہند سے یہ سوال کرنے کی نوبت اس وقت آئی جب بھوشن نے شکایت کی کہ ہر سال سرکاری بینکوں کا ہزاروں کروڑ روپیہ اس لئے ڈوب جاتا ہے کہ بینکیں نادہندہ لوگوں کو نان پرفارمنگ ایسٹ، اثاثہ (این پی اے) کی فہرست میں ڈال دیتی ہیں۔ یہ وہ قرض ہوتا ہے جسے بینک ناقابل وصول قرار دے دیتی ہے اور ہر سال ایسے ہزاروں معاملے بینکوں کوبند کرنے پڑتے ہیں جن کی مالیت لاکھوں کروڑں تک پہنچ چکی ہے۔
یہاں بتاتے چلیں کہ این پی اے کا مطلب نان پرفارمنگ ایسٹ، اثاثہ ہے اور یہ وہ قرض ہوتا ہے جسے بینک ناقابل وصول قرار دے دیتی ہے۔
ا یک آر ٹی آئی سے یہ انکشاف بھی ہوا ہے کہ حال کے سال گزشتہ 15۔2014 کے دوران 29 بینکوں نے 2611 لاکھ کروڑ روپے پرمشتمل قرض معاملات کو بند کردیا ہے۔ سپریم کورٹ نے اتنی بڑی رقم ڈوبنے پر بھی حیرانی ظاہر کی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ بڑے قرض داروں کا یہ سوچا سمجھا کھیل ہے جس کے ذریعہ وہ بینکوں سے قرض لیتے ہیں او رمختلف طریقوں سے خود کو دیوالیہ قرار دے لیتے ہیں یا راہِ فرار اختیار کرلیتے ہیں جیسا کہ حال میں دیکھنے کو ملا ہے۔ وجے مالیہ، نیرو مودی، میہل چوکسی سمیت متعدد بڑے کاروباری ہزاروں کروڑ روپے لے کر ملک سے فرار ہوگئے۔ ایک اندازے کے مطابق ملک میں این پی اے کی رقم 15 لاکھ کروڑ تک پہنچ چکی ہے۔