نصرت ویلفیئر سوسائٹی اور بہار اردو اکادمی کے تعاون سے منعقدہ اس ایک روزہ سیمنار میں بیشتر مقررین نے اس بات کا اعادہ کیا کہ اگر بھارت میں اردو زندہ ہے تو مدارس کی وجہ سے، اور مدارس نے صرف اردو کو زندہ ہی نہیں رکھا ہے بلکہ اس کی ترویج و اشاعت میں بنیادی کردار ادا کر رہا ہے۔
اس موقع پر اردو رابطہ کمیٹی کے صدر جناب حبیب مرشد نے اس بات پر زور دیا کہ عوامی چندے سے چلنے والی مدارس اردو کی اشاعت وترویج میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں لیکن مدارس عالیہ جن کے اساتذہ کو تنخواہ حکومت کی طرف سے دی جاتی ہے وہ مدارس اور اس مدارس سے جڑے لوگ انتہائی ناکارہ ہیں اور بچوں کو سند حاصل ہونے کےعلاوہ ان مدارس سے کوئی بھی فیض نہیں پہنچ رہا ہے جو افسوسناک ہے۔
اس موقع پر اردو رابطہ کمیٹی کے جنرل سکریٹری اور تلکا مانجھی یونیورسٹی کے پروفیسر جناب شاہد جمال رزمی نے مدارس کی خدمات کے تعلق سے تفصیلی بات چیت کی۔
انہوں نے کہا کہ اردو کسی مخصوص فرقہ کی زبان نہیں ہے بلکہ یہ ایک سیکولر زبان ہے حتیٰ کہ غیر مسلموں نے بھی اردو کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
اس کےعلاوہ جمعیت علماء ہند بھاگلپور کے صدر مولانا اسجد مدنی نے مدارس سے نکلنے والے ان اردو مجلوں اور رسالوں کا حوالہ دیا جو اردو کی بیش بہا خدمات انجام دے رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ نقیب ہو یا ندوہ سے نکلنے والا مجلہ تعمیرحیات یا دیگر رسالے ادارہ کو کوئی مالی فائدہ نہیں پہنچتا ہے اس کے باوجود یہ با قاعدگی سے چھپتے ہیں اور اردو کی اشاعت وترویج میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔
اس سیمنار میں قاضی شہر مفتی خورشید قاسمی نے بھی اپنی بات رکھی، انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ اردو کی مفت میں خدمت کر رہے ہیں لیکن کچھ لوگ اردو خور ہیں یعنی وہ اردو کے نام پر پیٹ تو بھرتے ہیں لیکن اردو کیبقا اور اس کی تحفظ کے لئےکوئی اقدم نہیں کرتے ہیں۔
ان کےعلاوہ 'ناگرک سیوا سمیتی' کے صدر رضوان خان نے بہار میں اردو کے ساتھ ہو رہے سوتیلا برتاؤ پر افسوس کا اظہار کیا۔
ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ اردو کی ترقی اسی وقت ممکن ہے جب خود اردو والے جاگ جائیں۔ انہوں نے لوگوں کو اپنے بچوں کو اردو کی تعلیم دینے پر زور دیا۔
سیمنار کے آخر میں مولانا زاہد حلیمی صاحب نے مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔
اس موقع پرانقلاب کے بیورو چیف تسنیم کوثر، روزنامہ اردو سہارا کے بیورو چیف اسد آفاق، اقدم صدیقی، جیسے سینئر صحافی بھی موجود تھے۔