خطابت و دینی نشر و اشاعت کے حوالے سے مُلکی سَطح پر اپنی نمایاں پہچان رکھنے والے معروف عالمِ دین و مگدھ کمشنری کے صدر اور جامعہ برکات منصور گیا کے ناظمِ اعلیٰ حضرت علّامہ و مولانا سیّد اقبال احمد حسَنی برکاتی گزشتہ شب 3 بجے اس دَارِ فانی سے رحلت فرما گٸے۔
ان کی طبیعت گزشتہ ایک ہفتے سے علیل تھی۔ پسماندگان میں اہلیہ، چار بچیاں اور دو صاحبزادے ہیں۔ مولانا کی عمر قریب 58 برس تھی۔
مولانا کئی دینی اداروں کے سرپرست تھے۔ مولانا مرحوم کے جنازے کی نماز چھوٹے صاحبزادے مولانا عفان الجامی نے پڑھائی اور تدفین بھٹ بیگہ قبرستان میں ہوئی۔
ان کے انتقال پرملال پر سیاسی و سماجی اور مذہبی رہنماؤں سمیت بہار کے وزیر اعلی نتیش کمار نے پسماندگان سے اظہار تعزیت کی ہے۔ اتفاق یہ کہ اسی شب قریب 11 بجے پٹنہ میں اُن کے برادرِ حقیقی اور معروف صحافی سیّد خورشید ہاشمی بھی اس دارِ فانی سے کوچ کر گٸے، دونوں برادران اپنے دینی و مِلّی کارہاٸے نمایاں کے سبب حلقہ علم و ادب میں انتہاٸی قدر کی نگاہوں سے دیکھے جاتے تھے۔ ایک دُنیاٸے خطابت کے شہنشاہ تھے تو دوسرے جہَانِ صحافت کے بے تاج بادشاہ۔
ان دونوں حضرات کے انتقال کی افسوسناک خبر سے جہاں مرحوم کے اہلِ خانہ میں صفِ ماتم بِچھ گٸی وہیں مُلکی سطح پر ان حضرات کو قریب سے جاننے والے احباب و مُتعلّقین میں بھی رنج و غم کی لہر دوڑ گٸی۔
یقیناً مرحوم مولانا اقبال حسَنی کی ذات قوم کے لٸے ایک سرمایہ کی حیثیت رکھتی تھی۔ کسی بھی دینی، مذہبی، مَسلکی، ملّی، مُلکی، سیاسی اور سماجی معاملات میں مُلک و مِلّت کی فلاح و بہبُود کے لٸے صداٸے احتجاج بلند کرنا ان کے حسَنی خون میں شامل تھا۔
آپ مّلت کے تٸیں اس قدر فِکر مند رہا کرتے تھے کہ گذشتہ دنوں جب دہلی میں فرقہ وارانہ فساد ہوا تو آپ نے کٸی بار بذریعہ فون اہلِ دہلی کی خیریت معلوم کرنے کے ساتھ ساتھ حکومتی سطح تک میمورنڈم ارسال کیا۔
سی اے اے و این آرسی اور این پی آر کے خلاف گیا میں سب سے پہلے مخالفت کی آواز بلند کی اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ غریب و پسماندہ طبقات اور مسلمانوں کو پریشان اور ہراساں کرناحکومت بند کرے۔
مولانا مرحوم کی قیادت میں گیا میں ایک عظیم احتجاجی جلوس بھی نکالا گیا جس میں لاکھوں افراد شریک ہوئے اور پھر اس جلوس کے بعد ایسی تحریک جاگی کہ ضلع کے متعدد مقامات پر تین ماہ تک مسلسل غیرمعینہ دھرنا جاری رہا، کورونا انفیکشن کے روک تھام کے لئے جاری کئے گئے لاک ڈاون کی وجہ سے دھرنا اختتام ہوا۔
مولانا مرحوم نے اتنے پر ہی بس نہیں کیا بلکہ انہوں نے ایک وفد لیکر وزیر اعلی نتیش کمار سے بھی ملے اور میمورنڈم سونپ کر این آر سی و این پی آرکے بائیکاٹ کا مطالبہ کیا۔ مولانا مرحوم نے کورونا انفیکشن سے بچاؤ اور احتیاط برتنے کے لئے بھی سوشل ذرائع پر خوب مہم چلائی، غریب و ضرورت مندوں کی مدد کے لئے صاحب ثروت کو بیدار کیا۔
مولاناسید قیصر خالد دہلی، مولانا الحاج سلیم اختر بلالی مدھوبنی، مولانامفتی مظفر حسین مصباحی گیا، مولانا تبارک حسین رضوی گیا، مولانا اظہر خان حبیبی جہان آباد، مولانا شبیراشرفی گیا، صوفی غلام حیدر ربانی، مولانارستم القادری، مفتی فخرالدین رضوی، حافظ وصی اختر بلالی، مولانا احسان احمد مصباحی، مولانافروغ القادری برطانیہ، مولانا سید اصغر امام، موتی کریمی، اسد پرویز، پیرطریقت سید اختر، مولانا صباح الدین منعمی اور مصطفی حسین عزیزی نے ان کی موت پر اظہار غم کیا ہے۔
مولانا سید قیصر خالد نے بتایاکہ حضُور احسَن العُلما مارہرہ شریف یوپی کے دستِ حق پرست پر شرفِ بیعَت حاصل کرنے والے مولانا اقبال حسَنی صاحب شہرِ گیا ہی نہیں بلکہ مگدھ کمشنری کے شرعی معاملات کی زُلفِ پریشاں کو سنوارنے میں تا زندگی مصروف رہے، ان کا اچانک چلے جانا خاص طور سے بہار و جھارکھنڈ کے لٸے وہ عِلمی خسارہ ہے جس کا پُر ہونا ماضی قریب میں نا ممکن نظر آرہا ہے۔ مولیٰ تعالیٰ اُن کے دینی مِشن کو جاری رکھے اور ان کے جملہ اہلِ خانہ، احباب و مُتعلّقین کو صبر جمیل عطا فرماٸے، نیز اُن کے درجات کو بلند فرماٸے۔