اس منعقدہ اجلاس میں محمان اردو کی بڑی تعداد موجود تھی، اس تعزیتی نشست کی صدارت پروفیسر ڈاکٹر شاہد رزمی نے کی۔
جلسہ میں شہر کی نامور شخصیات، سماجی کارکن اور اردو صحافی اور دیگر شعبے کے لوگ موجود تھے، جس میں سلیم سوگندھ، اعجاز الحق اعظمی، اقبال انصاری، رضوان خان، احسان الحق، نہال اختر، فیاض حسین، اقدم صدیقی، قمر امان، سجاد عالم، منظر عالم، وغیرہ موجود تھے۔
اس موقع پر تعزیت پیش کرنے والوں میں اردو رابطہ کمیٹی کے عہدیداران، محبوب عالم، حبیب مرشد خان وغیرہ قابل ذکر تھے۔
ڈاکٹر حبیب مرشد نے محسن اردو ڈاکٹر جگناتھ مشرا کے حوالے سے اہم گفتگو کی۔
انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر جگناتھ مشرا ہی کہ وجہ سے 1980 میں بہار میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ ملا، جس کی بدولت اردو کی ترقی و ترویج و اشاعت میں فائدہ ہوا اور اردو داں طبقے کو روزگار بھی مہیا کرائے۔
بہار میں ڈاکٹر جگناتھ مشرا کے ذریعہ اردو کو سرکاری زبان کا درجہ دئے جانے کے بعد ہی دوسری ریاستوں جیسے مغربی بنگال، آندھرپردیش، دلی جیسی جگہوں میں اردو کو دوسری سرکاری زبان کا درجہ حاصل ہوا۔
اس موقع پر ڈاکٹر شاہد رزمی نے اپنے افتتاحی خطبہ میں یہ بات واضح کر دی کہ وہ سیاسی جگناتھ مشرا کو یاد نہیں کر رہے ہیں بلکہ محسن اردو کی حیثیت سے ڈاکٹر جگناتھ مشرا کو یاد کر رہے ہیں، جنہوں اردو کے لئے بے پناہ خدمات انجام دیں۔
جب ہیومن رائٹس پروٹیکشن فاؤنڈیشن کے جنرل سکریٹری سلیم سوگندھ نے کہا ڈاکٹر جگناتھ مشرا کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ انہیں محسن اردو ہی نہیں بلکہ محسن انسانیت کا کہا جائے تو بے جا نہیں ہوگا کیونکہ انہیں اپنے ملک و قوم کی بلا مذہب و ملت خدمات انجام دیں۔
آپ کو بتا دیں کہ ڈاکٹر جگناتھ مشرا نے 22 کتابیں بھی لکھی ہیں اور انہوں نے بھاگلپور کے ٹی این بی کالج سے ہی گریجویشن حاصل کیا تھا اور ان کے آباؤ اجداد کا مجاہد آزادی میں اہم کردار رہا ہے۔