گیا: ریاست بہار کے ضلع گیا میں آج آٹو اور ٹوٹو گاڑیوں کے ڈرائیوروں نے ہڑتال کا اعلان کردیا ۔صبح سے ہی ان گاڑیوں سے شہر میں آمدورفت کرنے والوں کو مشکلات کاسامنا ہے۔ خاص کر ریلوے اسٹیشن بس اسٹینڈ جانے والے کئی کلو میٹر تک پیدل چل کر ہی اپنی منزل تک پہنچ پارہے ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو سکریہ موڈ بس اسٹینڈ سے گیا ریلوے اسٹیشن تک کی دوری پانچ کلو میٹر تک کی ہے۔ اسی طرح ندی کے دوسری طرف پر واقع مانپور پہنچنے کے لئے سکریہ موڈ سے آٹھ سے دس کلو میٹر تک کا سفر طے کر نا پڑتا ہے۔
یہاں آنے جانے کا ذریعہ آٹو اور ٹوٹو گاڑیاں ہی ہیں۔ زیادہ تر افراد ان گاڑیوں کا استعمال کرتے ہیں اب جبکہ آج آٹو اور ٹوٹو ہڑتال پر ہیں تو آمد و رفت کرنے والوں کو مشکلات کاسامنا ہے۔ دراصل گیا میں آج آٹو ڈرائیور ٹرافیک پولیس کے خلاف احتجاج میں ہڑتال پر ہیں بے۔ روزگار تعلیم یافتہ آٹو و ٹو ٹو یونین کے سکریٹری احتشام خان نے ہڑتال کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ ٹریفک پولیس ڈرائیوروں پر زیادتی کرتی ہے۔ٹریفک ڈی ایس پی نے ڈرائیوروں کو بے رحمی سے گزشتہ روز مارا پیٹا ہے۔ جس کی وجہ سے ایک ڈرائیور کو ہاتھ میں شدید چوٹیں آئی ہیں۔انہوں نے کہاکہ اس حوالے سے گیا ڈی ایم ڈاکٹر تیاگ راجن کو لیٹر بھی دے شکایت درج کراچکے ہیں۔
ٹریفک ڈی ایس پی کے ذریعے مار پیٹ اور نازیبا الفاظ کے استعمال کی وجہ پوچھے جانے پر انہوں نے کہا کہ پولیس جام کی وجہ آٹو اور ٹوٹو کو مانتی ہے جبکہ اس حوالے سے ڈی ایم اور پولیس کے اعلی افسران سے شکایت پہلے کی گئی ہے۔ ساتھ ہی ڈی ایم کو بتایا گیا ہے کہ سڑک جام کا ایک سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ شہر میں قریب 10 جگہوں پر آٹو اسٹینڈ ہے۔
تاہم وہاں پر ناجائز قبضہ ہو چکا ہے جس کی وجہ سے جہاں تہاں گاڑیاں لگ جاتی ہیں اور اس وجہ سے سڑک پر آمد و رفت متاثر ہوتی ہے تاہم اس کے ذمہ دار جنہوں نے اسٹینڈ کی جگہ پر قبضہ کیا ہے وہ ہیں۔ اس پر کاروائی کرنے کے بجائے آوٹو ڈرائیوروں کے ساتھ مارپیٹ کی جاتی ہے،متعدد بار ضلع انتظامیہ سے اسٹینڈ کی جگہ نشان زد کر گاڑی لگانے کی جگہ کی مانگ کی گئی ہے۔
یہ بھی پڑھیں:Mobile Repair Work in Gaya گیا میں ریپیرنگ کا کام سیکھ کر نوجوان ہو رہے ہیں برسر روزگار
تاہم اب تک ان کے مطالبے پر کوئی کاروائی نہیں کی جا سکی ہے ،ساتھ ہی پورے ضلع کی پولیس مفت میں آٹو و ٹوٹو پر سواری کرتے ہیں اور ضرورت پڑنے پر اس پر لاش بھی لے کر جاتے ہیں لیکن ان سب کا وہ پیسہ ادا نہیں کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ گیا شہر میں جام کا مسئلہ سنگین ہے لیکن اس کی ایک وجہ آٹو اور ٹوٹو نہیں ہے بلکہ شہر میں بڑھتی گاڑیاں بھی ہیں ، زیادہ تر چھوٹی سڑکوں پر بھی بڑی بڑی گاڑیاں آجاتی ہیں جس کی وجہ سے سڑک جام ہونے کا مسئلہ پیش آتا ہے ،انہوں نے کہا کہ اگر ٹریفک ڈی ایس پی پر کاروائی نہیں کی جاتی ہے تو شہر میں آؤٹو و ٹوٹو کا چکا جام رہے گا۔
ریاستی وزیر کی حمایت حاصل ہے
آٹو اور ٹوٹو بےروزگار یونین کو ریاستی وزیر ڈاکٹر سریندر یادو کی بھی حمایت حاصل ہے سریندر یادو اس یونین کے صدر ہیں اور اس وجہ سے وہ آٹو یونین کی حمایت کر رہے ہیں سریندر یادو کی رہائش گاہ پر آٹو و ٹوٹو یونین نے پریس کانفرنس بھی کیا تھا حالانکہ اس پریس کانفرنس میں ریاستی وزیر سریندر یادو شامل نہیں ہوئےتھے تاہم انہوں نے ای ٹی وی بھارت اردو کے ذریعے پوچھے جانے پر کہا کہ وہ پولیس کے اعلی افسران سے اس حوالہ سے بات کی ہے جلد ہی کوئی راستہ نکل جائے گا۔