ETV Bharat / state

Agarbatti Industry in Gaya اگربتی بنانے کے روایتی طور طریقوں کو مشینوں نے متاثر کیا

ریاست بہار کے ضلع گیا میں اگربتی بنانے کے روایتی طور طریقوں میں تبدیلیاں ہوئی ہیں۔ مشینوں سے اگربتی کے پروڈکشن اور صنعت میں اضافہ ہوا ہے۔ تاہم مشینوں کے کارخانوں میں اضافے کے سبب ' مین پاور ' یعنی کہ روایتی مزدوروں کی تعداد میں نمایاں کمی ہوئی ہے اور یہ مزدور دوسرے کاموں میں روزگار تلاش کرچکے ہیں۔ لیکن ایک حقیقت یہ بھی ہے کہ اگربتی کے مزدوروں کا مستقل کوئی روزگار نہیں ہے۔ نئے زمانہ کی مشینوں نے اگربتی مزدوروں کی تعداد پر غلبہ حاصل کرلیا۔ یہی سبب ہے کہ اگربتی کے کاروبار میں جہاں پہلے سینکڑوں مزدور کام کرتے تھے۔ وہاں اب مشینوں نے مزدوروں کی تعداد کم کرکے درجنوں پر سمیت دی ہے۔

الیکٹرک مشینوں سے تیار کی جاتی ہے اگربتی
الیکٹرک مشینوں سے تیار کی جاتی ہے اگربتی
author img

By

Published : Aug 7, 2023, 5:03 PM IST

اگربتی بنانے کے روایتی طور طریقوں کو مشینوں نے متاثر کیا

گیا: ریاست بہار کے ضلع گیا میں اگربتی کی صنعت برسوں قدیم ہے اور گیا کی اگربتی نہ صرف ملکی سطح پر پسند کی جاتی ہے بلکہ اس کی مانگ ملک کی دوسری ریاستوں سے بھی تھی۔ پہلے مینول طریقے سے یعنی کہ ' ہاتھوں سے تیار ' اگربتی کی سپلائی بہار کے علاوہ دوسری ریاستوں میں تھی، اگربتی کے صنعت کاروں کے مطابق دس برس قبل گیا ضلع میں اس صنعت کا عالم یہ تھا کہ ہر دس گھروں میں سے ایک گھر کے لوگ اس صنعت سے وابستہ تھے، ضلع میں ستر ہزار سے ایک لاکھ کے درمیان خواتین کا روزگار اگربتی بنانے کا تھا، اس کے صنعت کاروں اور مزدوروں میں ستر فیصد مسلم تھے۔

اگربتی بنانے کے روایتی طور طریقوں کو مشینوں نے متاثر کیا
اگربتی بنانے کے روایتی طور طریقوں کو مشینوں نے متاثر کیا

یہ بھی پڑھیں:

الیکٹرک مشینوں سے تیار کی جاتی ہے اگربتی

تاہم اب اس کام کے طور طریقے بدل گئے ہیں، ہاتھوں سے تیار ہونے والی اگربتی اب الیکٹرک مشینوں سے بنائی جارہی ہے، بدلتے زمانہ میں نئی ٹیکنالوجی کے کئی فائدے ہیں لیکن اگربتی کی صنعت میں نئی ٹیکنالوجی نے فائدہ کے ساتھ نقصان بھی پہنچایا ہے، ملک کے چنندہ مقامات پر ہی ہاتھوں سے اگربتی تیار ہوتی تھی۔ جس میں بہار کا ضلع گیا فہرست میں اول تھا۔ ضلع گیا کی اگربتی کا پروڈکشن اور کھپت اتنی زیادہ تھی کہ یہاں سے دوسری ریاستوں میں ہر دن ایک ٹرک سے زیادہ کچے مال بھیجے جاتے تھے، لیکن اب مشینوں کی وجہ سے صنعت کا فروغ تو ہوا تاہم دائرہ محدود ہو گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ کہ مشینوں کے آنے کے سبب ہر جگہوں پر اگربتی بننے لگی ہے۔ جس کے سبب اب ' مین پاور' کم ہو گیا ہے اور مشینوں کا استعمال بڑھ گیا ہے اور دوسری ریاستوں میں سپلائی رک گئی ہے۔

اگربتی بنانے کے روایتی طور طریقوں کو مشینوں نے متاثر کیا
اگربتی بنانے کے روایتی طور طریقوں کو مشینوں نے متاثر کیا
بڑے کارخانے متاثر ہوئے ہیں گیا میں 70 برس سے چلنے والے ایک قدیم کار خارخانہ ' ہمالیہ فریگرینسی ' کے مالک محمد عارف عرف ببلو کہتے ہیں کہ اس صنعت میں بدلاؤ ہوا ہے، مشینوں کے آنے سے کم وقت میں زیادہ پروڈکشن ہوتا ہے لیکن اس سے باہری مطالبے کم ہو گئے ہیں، پہلے ان کے کارخانہ سے ملکی سطح پر مال جاتے تھے۔ لیکن اب ریاست کے کچھ ضلعے و علاقوں میں سپلائی محدود ہے۔ اس کی وجہ یہ کہ ہر جگہ مشینوں سے کام ہو رہا ہے، پہلے ملک میں بنگلور اور گیا میں ہی ہاتھوں سے اگربتی بنتی تھی، ان کے کئی مقامات پر کام ہوتے تھے۔

جہاں اگربتی بنتی تھی تب وہاں ایک سائڈ پر کم سے کم 50 مزدور ہوا کرتے تھے۔ ایک مزدور ایک دن میں 4 سے 5 کلو اگربتی بناتا تھا۔ اس وجہ سے ضلع ہی نہیں مگدھ کمشنری کے پانچوں ضلعوں کے سینکڑوں گاؤں کے لوگوں کو جوڑ کر ان کے گھروں تک میٹریل پہنچائے جاتے تھے تاکہ زیادہ پروڈکشن ہو۔ لیکن اب ایک مشین سے ایک دن میں کم ازکم 80 کلو تک کا پروڈکشن ہے۔ ایک مشین چلانے کے لیے ایک آدمی کی ضرورت ہوتی ہے، اگر پانچ مشینیں ہیں تو ٹیکنیشین اور مزدور ملاکر 10 لوگ بھی ہیں تو اچھے ڈھنگ سے کام ہو جائے گا۔ ہمالیہ کارخانہ کی فی الحال ایک لاکھ روپیے سے زیادہ ماہانہ آمدنی ہے۔

مجبوری میں دوسرے ذریعہ معاش کو سہارا بنانا پڑا
اگربتی کارخانوں میں مشینوں کی تعداد بڑھنے کے سبب روایتی طور پر کام کرنے والوں نے دوسرا ذریعہ معاش اختیار کیا ہے۔ مزدوری کرنے والوں میں مرد یومیہ مزدوری کے لیے ہوٹلوں اور دیگر کاموں کی طرف منتقل ہوگئے ہیں۔ جب کہ خواتین نے چوڑی بنانے کے کاموں کو اختیار کیا ہے۔ ضلع گیا میں لہٹی چوڑی کی چھوٹی چھوٹی صنعت بڑھی ہے اور اگربتی کی طرح ہی گھر بیٹھے خواتین چوڑیاں بنارہی ہیں۔ اس کام کی اجرت بھی زیادہ ہے۔ چوڑی بنانے کا کام بھی اگربتی سے ملتا جلتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ گاؤں دیہات کی خواتین کو کام بدلنے میں زیادہ پریشانی نہیں ہوئی ہے۔ ہمالیہ اگربتی کارخانہ کے مالک ببلو کے مطابق آج سے پانچ چھ برس قبل تک ان کے یہاں پانچ سو سے زیادہ مزدور تھے۔ لیکن اب ان کی تعداد 50 تک محدود ہوگئی ہے۔ پہلے ہر دن ایک ٹرک مال کی سپلائی تھی لیکن اب ہفتہ پندرہ دنوں میں اتنے مالوں کی سپلائی ہے۔


حکومت کے اداروں سے نہیں ملتا تعاون
محکمۂ صنعت کی جانب سے کئی اسکیموں کے توسط سے چھوٹی صنعتوں کے تحت کارخانے اور فیکٹریاں چلانے میں مدد ملتی ہے۔ لیکن اس کی جانکاری ہر کسی کو نہیں ہے۔ گیا کے گیوال بیگہ میں واقع ہمالیہ اگربتی کارخانہ کے مالک محمد عارف عرف ببلو کہتے ہیں کہ یہ ان کا خاندانی کام ہے، ان کے دادا نے اگربتی کارخانے کی شروعات کی تھی اور اس کے بعد والد نے کیا اور اب وہ کررہے ہیں۔ اس وقت کم لاگت میں زیادہ آمدنی تھی، مہنگائی بڑھی تو آمدنی میں بھی فرق پڑا۔ لیکن یہ ضرور تھا کہ کھپت زیادہ ہونے کے سبب آمدنی اچھی خاصی تھی، پہلے 500 کی لاگت پر سو روپیے سے ڈیڑھ سو روپیے آمدنی تھی۔ لیکن اب ایک بوری کا خرچ جو مٹیریل لایا جاتا ہے اور بنایا جاتا ہے اس کے اخرجات 2000 کے ہیں لیکن اس میں بچت سو سے ڈیڑھ سو روپیے تک ہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مشینیں چھوٹی ہیں لیکن وہ مہنگی ہوتی ہیں۔ ایک مشین کی لاگت دو سے ڈھائی لاکھ روپیے تک ہے۔ اگر کوئی بڑا کارخانہ جہاں 50 سے زیادہ مشینوں کو لگایا جائے اس کے لیے موٹی رقم خرچ ہوگی اور اس صورت میں چھوٹا تاجر یہ کر نہیں سکتا ہے۔ اگر حکومت اگربتی کی صنعت کے فروغ اور روزگار بڑھانے کے لیے مدد کرے تو پھر کچھ حد تک کھپت بڑھے گی۔ انہوں نے کہا کہ انہیں آج تک صنعت محکمہ سے کوئی فائدہ دستیاب نہیں ہوا ہے، صرف مدرا لون کے تعلق سے جانکاری لی ہے لیکن لون ابھی تک انہیں نہیں ملا ہے۔

واضح ہو کہ گیا میں کچی اگربتی بنتی ہے۔ اس کے بنانے کا پروسس یہ ہے کہ اس کے کئی طرح کے کیمیکل، پاوڈر اور کلر آتے ہیں، اسے ملاکر آنٹے کی طرح مشین یا ہاتھوں سے گوندھ دیا جاتا ہے اور پھر اسے مشینوں میں ڈال کر لکڑی کی باریک ڈنٹی میں لپیٹ دیا جاتا ہے۔ اسے خشک کرکے پھر بوریوں میں پیک کرکے دوسری فیکٹریوں کو بھیج دیا جاتا ہے۔ جہاں پر خوشبو ڈالنے کے علاوہ اس کی پیکنگ کی جاتی ہے اور پھر اسے مارکیٹ میں سپلائی کیا جاتا ہے، گیا ضلع میں کچی اگربتی کا ہی کام ہوتا ہے۔ 5 برس قبل گیا کے پنچایتی اکھاڑا، اقبال نگر، موریہ گھاٹ، گیوال بیگہ اور گھنگری تانڈ سمیت کئی جگہوں پر کام ہوتے تھے لیکن اب یہ آہستہ آہستہ ختم ہورہا ہے، حالانکہ پرانے کارخانوں کے بند ہونے کے بعد نئے کارخانے بھی قائم ہوئے ہیں۔ آج بھی اس صنعت میں مسلم صنعت کاروں کی تعداد زیادہ ہے۔

اگربتی بنانے کے روایتی طور طریقوں کو مشینوں نے متاثر کیا

گیا: ریاست بہار کے ضلع گیا میں اگربتی کی صنعت برسوں قدیم ہے اور گیا کی اگربتی نہ صرف ملکی سطح پر پسند کی جاتی ہے بلکہ اس کی مانگ ملک کی دوسری ریاستوں سے بھی تھی۔ پہلے مینول طریقے سے یعنی کہ ' ہاتھوں سے تیار ' اگربتی کی سپلائی بہار کے علاوہ دوسری ریاستوں میں تھی، اگربتی کے صنعت کاروں کے مطابق دس برس قبل گیا ضلع میں اس صنعت کا عالم یہ تھا کہ ہر دس گھروں میں سے ایک گھر کے لوگ اس صنعت سے وابستہ تھے، ضلع میں ستر ہزار سے ایک لاکھ کے درمیان خواتین کا روزگار اگربتی بنانے کا تھا، اس کے صنعت کاروں اور مزدوروں میں ستر فیصد مسلم تھے۔

اگربتی بنانے کے روایتی طور طریقوں کو مشینوں نے متاثر کیا
اگربتی بنانے کے روایتی طور طریقوں کو مشینوں نے متاثر کیا

یہ بھی پڑھیں:

الیکٹرک مشینوں سے تیار کی جاتی ہے اگربتی

تاہم اب اس کام کے طور طریقے بدل گئے ہیں، ہاتھوں سے تیار ہونے والی اگربتی اب الیکٹرک مشینوں سے بنائی جارہی ہے، بدلتے زمانہ میں نئی ٹیکنالوجی کے کئی فائدے ہیں لیکن اگربتی کی صنعت میں نئی ٹیکنالوجی نے فائدہ کے ساتھ نقصان بھی پہنچایا ہے، ملک کے چنندہ مقامات پر ہی ہاتھوں سے اگربتی تیار ہوتی تھی۔ جس میں بہار کا ضلع گیا فہرست میں اول تھا۔ ضلع گیا کی اگربتی کا پروڈکشن اور کھپت اتنی زیادہ تھی کہ یہاں سے دوسری ریاستوں میں ہر دن ایک ٹرک سے زیادہ کچے مال بھیجے جاتے تھے، لیکن اب مشینوں کی وجہ سے صنعت کا فروغ تو ہوا تاہم دائرہ محدود ہو گیا ہے۔ اس کی وجہ یہ کہ مشینوں کے آنے کے سبب ہر جگہوں پر اگربتی بننے لگی ہے۔ جس کے سبب اب ' مین پاور' کم ہو گیا ہے اور مشینوں کا استعمال بڑھ گیا ہے اور دوسری ریاستوں میں سپلائی رک گئی ہے۔

اگربتی بنانے کے روایتی طور طریقوں کو مشینوں نے متاثر کیا
اگربتی بنانے کے روایتی طور طریقوں کو مشینوں نے متاثر کیا
بڑے کارخانے متاثر ہوئے ہیں گیا میں 70 برس سے چلنے والے ایک قدیم کار خارخانہ ' ہمالیہ فریگرینسی ' کے مالک محمد عارف عرف ببلو کہتے ہیں کہ اس صنعت میں بدلاؤ ہوا ہے، مشینوں کے آنے سے کم وقت میں زیادہ پروڈکشن ہوتا ہے لیکن اس سے باہری مطالبے کم ہو گئے ہیں، پہلے ان کے کارخانہ سے ملکی سطح پر مال جاتے تھے۔ لیکن اب ریاست کے کچھ ضلعے و علاقوں میں سپلائی محدود ہے۔ اس کی وجہ یہ کہ ہر جگہ مشینوں سے کام ہو رہا ہے، پہلے ملک میں بنگلور اور گیا میں ہی ہاتھوں سے اگربتی بنتی تھی، ان کے کئی مقامات پر کام ہوتے تھے۔

جہاں اگربتی بنتی تھی تب وہاں ایک سائڈ پر کم سے کم 50 مزدور ہوا کرتے تھے۔ ایک مزدور ایک دن میں 4 سے 5 کلو اگربتی بناتا تھا۔ اس وجہ سے ضلع ہی نہیں مگدھ کمشنری کے پانچوں ضلعوں کے سینکڑوں گاؤں کے لوگوں کو جوڑ کر ان کے گھروں تک میٹریل پہنچائے جاتے تھے تاکہ زیادہ پروڈکشن ہو۔ لیکن اب ایک مشین سے ایک دن میں کم ازکم 80 کلو تک کا پروڈکشن ہے۔ ایک مشین چلانے کے لیے ایک آدمی کی ضرورت ہوتی ہے، اگر پانچ مشینیں ہیں تو ٹیکنیشین اور مزدور ملاکر 10 لوگ بھی ہیں تو اچھے ڈھنگ سے کام ہو جائے گا۔ ہمالیہ کارخانہ کی فی الحال ایک لاکھ روپیے سے زیادہ ماہانہ آمدنی ہے۔

مجبوری میں دوسرے ذریعہ معاش کو سہارا بنانا پڑا
اگربتی کارخانوں میں مشینوں کی تعداد بڑھنے کے سبب روایتی طور پر کام کرنے والوں نے دوسرا ذریعہ معاش اختیار کیا ہے۔ مزدوری کرنے والوں میں مرد یومیہ مزدوری کے لیے ہوٹلوں اور دیگر کاموں کی طرف منتقل ہوگئے ہیں۔ جب کہ خواتین نے چوڑی بنانے کے کاموں کو اختیار کیا ہے۔ ضلع گیا میں لہٹی چوڑی کی چھوٹی چھوٹی صنعت بڑھی ہے اور اگربتی کی طرح ہی گھر بیٹھے خواتین چوڑیاں بنارہی ہیں۔ اس کام کی اجرت بھی زیادہ ہے۔ چوڑی بنانے کا کام بھی اگربتی سے ملتا جلتا ہے۔

یہی وجہ ہے کہ گاؤں دیہات کی خواتین کو کام بدلنے میں زیادہ پریشانی نہیں ہوئی ہے۔ ہمالیہ اگربتی کارخانہ کے مالک ببلو کے مطابق آج سے پانچ چھ برس قبل تک ان کے یہاں پانچ سو سے زیادہ مزدور تھے۔ لیکن اب ان کی تعداد 50 تک محدود ہوگئی ہے۔ پہلے ہر دن ایک ٹرک مال کی سپلائی تھی لیکن اب ہفتہ پندرہ دنوں میں اتنے مالوں کی سپلائی ہے۔


حکومت کے اداروں سے نہیں ملتا تعاون
محکمۂ صنعت کی جانب سے کئی اسکیموں کے توسط سے چھوٹی صنعتوں کے تحت کارخانے اور فیکٹریاں چلانے میں مدد ملتی ہے۔ لیکن اس کی جانکاری ہر کسی کو نہیں ہے۔ گیا کے گیوال بیگہ میں واقع ہمالیہ اگربتی کارخانہ کے مالک محمد عارف عرف ببلو کہتے ہیں کہ یہ ان کا خاندانی کام ہے، ان کے دادا نے اگربتی کارخانے کی شروعات کی تھی اور اس کے بعد والد نے کیا اور اب وہ کررہے ہیں۔ اس وقت کم لاگت میں زیادہ آمدنی تھی، مہنگائی بڑھی تو آمدنی میں بھی فرق پڑا۔ لیکن یہ ضرور تھا کہ کھپت زیادہ ہونے کے سبب آمدنی اچھی خاصی تھی، پہلے 500 کی لاگت پر سو روپیے سے ڈیڑھ سو روپیے آمدنی تھی۔ لیکن اب ایک بوری کا خرچ جو مٹیریل لایا جاتا ہے اور بنایا جاتا ہے اس کے اخرجات 2000 کے ہیں لیکن اس میں بچت سو سے ڈیڑھ سو روپیے تک ہی ہے۔

انہوں نے کہا کہ مشینیں چھوٹی ہیں لیکن وہ مہنگی ہوتی ہیں۔ ایک مشین کی لاگت دو سے ڈھائی لاکھ روپیے تک ہے۔ اگر کوئی بڑا کارخانہ جہاں 50 سے زیادہ مشینوں کو لگایا جائے اس کے لیے موٹی رقم خرچ ہوگی اور اس صورت میں چھوٹا تاجر یہ کر نہیں سکتا ہے۔ اگر حکومت اگربتی کی صنعت کے فروغ اور روزگار بڑھانے کے لیے مدد کرے تو پھر کچھ حد تک کھپت بڑھے گی۔ انہوں نے کہا کہ انہیں آج تک صنعت محکمہ سے کوئی فائدہ دستیاب نہیں ہوا ہے، صرف مدرا لون کے تعلق سے جانکاری لی ہے لیکن لون ابھی تک انہیں نہیں ملا ہے۔

واضح ہو کہ گیا میں کچی اگربتی بنتی ہے۔ اس کے بنانے کا پروسس یہ ہے کہ اس کے کئی طرح کے کیمیکل، پاوڈر اور کلر آتے ہیں، اسے ملاکر آنٹے کی طرح مشین یا ہاتھوں سے گوندھ دیا جاتا ہے اور پھر اسے مشینوں میں ڈال کر لکڑی کی باریک ڈنٹی میں لپیٹ دیا جاتا ہے۔ اسے خشک کرکے پھر بوریوں میں پیک کرکے دوسری فیکٹریوں کو بھیج دیا جاتا ہے۔ جہاں پر خوشبو ڈالنے کے علاوہ اس کی پیکنگ کی جاتی ہے اور پھر اسے مارکیٹ میں سپلائی کیا جاتا ہے، گیا ضلع میں کچی اگربتی کا ہی کام ہوتا ہے۔ 5 برس قبل گیا کے پنچایتی اکھاڑا، اقبال نگر، موریہ گھاٹ، گیوال بیگہ اور گھنگری تانڈ سمیت کئی جگہوں پر کام ہوتے تھے لیکن اب یہ آہستہ آہستہ ختم ہورہا ہے، حالانکہ پرانے کارخانوں کے بند ہونے کے بعد نئے کارخانے بھی قائم ہوئے ہیں۔ آج بھی اس صنعت میں مسلم صنعت کاروں کی تعداد زیادہ ہے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.