ریاست بہار کے ضلع گیا کے اقلیتی رائے دہندگان کے درمیان ملی و فلاحی تنظیموں کے نمائندے ووٹ پولرائز ہونے سے روکنے کے لیے مہم چلا رہے ہیں۔ ان کا ماننا ہے کہ حق رائے دہی کا استعمال اور تشہیر جذباتی ہوکر نہیں ہونا چاہئے۔ بلکہ ایشوز اور ایجنڈوں پر تشہیر ہوں، نظریاتی اختلاف ہوں لیکن اس میں خیال ہوکہ اس سے ووٹ پولرائز نہ ہوں بلکہ اس سے ان مسائل پر ایجنڈوں پر اختلافات سامنے ہوں کہ اکثریتی رائے دہندگان بھی اس مہم میں شامل ہونے پر مجبور ہوں۔
تعلیم، ہیلتھ سسٹم، معاشی وسماجی ترقی، بے روزگاری، گلی نلی، سڑک کی تعمیر اور بنیادی مسائل کے ساتھ سیکولرازم کے فروغ جیسے ایجنڈے ہوں، جن اسمبلی حلقے سے دو یا تین مرتبہ ایک ہی شخص ووٹ پولرائز کراکے جیت درج کر رہا ہو۔ اس کے کاموں کا تجزیہ سنجیدگی اور دانشمندی کے ساتھ کریں تاکہ وہ رواں برس کے انتخاب میں اپنے پرانے حربے کا استعمال نہ کرسکے۔
اقلیتی رائے دہندگان جذباتی ہوکر کسی ایک پارٹی یا امیدوار کے حق میں مہم چلائیں گے تو کہیں نہ کہیں اس کے اثرات منفی ہوں گے۔ شہر گیا میں اس سلسلے میں ملی و فلاحی تنظیموں، مسلم سیاستدانوں اور دانشوروں میں کافی ہلچل دیکھی گئی ہے اور اس سلسلے میں مخصوص مقامات پر سنجیدگی کے ساتھ تبادلہ خیالات کا دور بھی چل رہا ہے۔ یہ کوئی عوامی میٹنگ نہیں ہوئی ہے اس لیے اس کی تشہیر کے لیے میڈیا کو دور رکھا گیا ہے۔ مگر اس میں جو باتیں سامنے آئی ہیں وہ ووٹرز اور عوامی نمائندوں تک پہنچانا ضروری ہے۔
اس سلسلے میں سماجی کارکن و جماعت اسلامی کے رکن صلاح الدین محمد فرہاد کہتے ہیں کہ ہمیں دیکھنا چاہئے کہ میدان میں جو پارٹی یا امیدوار ہے، دونوں کا صحیح اسٹڈی کرنا چاہئے اور اس میں جو بیسٹ ہے اسی کو ہی ووٹ کرنا چاہئے۔ ان سے ان کے انتخابی منشور کے متعلق پوچھنا چاہئے، ان سے یہ پوچھنا چاہئے کہ وہ ہمارے علاقے اور محلے کے ترقی کے متعلق کیا سوچتے ہیں، اگر اس سے پہلے وہ جیتے ہوئے ہیں تو ان سے ان کے کاموں کے متعلق جانیں۔
صوبے اور عوام کے لیے ان کا نظریہ کیا ہے؟ وہ کون سا نیا قانون بناکر مسائل کو حل کریں گے؟ ساتھ ہی وہ کون سے قانون ہیں جس کی وجہ سے مسائل بڑھے ہوئے ہیں۔ اس قانون سے کیسے نجات پاکر مسائل کو حل کریں گے۔ ان سب موضوعات پر بات ہونی چاہئے۔
مذہبی آزادی کو بار بار خطرے میں ڈالنے کی بات ہوتی ہے تو اس سلسلے میں مذہبی آزادی کو مستحکم بنانے کا کون سا ان کے پاس طریقہ ہے اس پر بھی سوال ہونے چاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ سیکولرازم کے فروغ کی بات ہونی چاہئے لیکن یہ صرف دیکھاوا نہیں بلکہ سیکولرازم کے لیے سیاسی پارٹیوں نے کیا کیا ہے؟ اس کا بھی تجزیہ ہونا چاہئے، کسی ایک پارٹی کو ہرانے کے چکر میں ہمارے وہ مسائل جو سیکولر پارٹیوں سے سوال ہونے چاہئے وہ بھی الجھ جاتے ہیں اور وہ پارٹیاں ہمیں صرف ووٹ بینک بناکر چھوڑ دیتی ہیں جس کی وجہ سے ہمارے مسائل برسوں سے یوں ہی پڑے ہیں۔
دلت مسلم ایکتا منچ کے رکن فیاض خان کہتے ہیں کہ وقت اور حالات کے پیش نظر ہمیں احتیاط کے ساتھ کام کرنا ہے۔ عوامی مسائل سے متعلق اگر زیادہ سوالات ہوں گے تو ہمارے معاشرے کے جو پسماندہ طبقات ہیں وہ ہم سے جڑیں گے۔ کسی کی ہار یا جیت پر بہت کام کیا گیا ہے تاہم وقت ہے کہ ہم مسائل کو حل کرانے کی بات کریں۔ مسلمان سوال پوچھنے کے بجائے جذباتوں میں آجاتے ہیں۔ امیدوار اور پارٹی کا سلیکشن غور و فکر کرکے ہونا ضروری ہے اور اس کے لیے سبھی کو متحد ہونا ہے۔