گیا: ریاست بہار کے ضلع گیا میں رام نومی کے موقع پر پیش آئے پرتشدد واقعات کی وجہ سے رمضان اور عید کی خریداری متاثر ہوئی ہے، رمضان کا آخری عشرہ اپنے اختتام کے قریب تر ہے باوجود کہ ابھی تک درزی خانوں میں ' ہاؤس فل ' کا بورڈ نہیں لگا ہے۔ ٹیلرز اور کاریگروں کے مطابق جس وقت سلنے والے کپڑوں کی مارکیٹ عروج پر ہوتی ہے اس وقت ضلع گیا کے علاوہ قرب و جوار کے اضلاع میں رام نومی کے موقع پر پرتشدد واقعات پیش آئے جس کی وجہ سے گاؤں دیہات قصبوں کے لوگ اپنے علاقے س ےباہر نہیں نکلے۔ کرتا پائجامہ اور پٹھانی سوٹ سلوانے والوں کی تعداد میں کمی آئی ہے، پندرہ سولہ رمضان تک کپڑے سلائی کے کام میں تیزی نہیں تھی حالانکہ بیس رمضان کے بعد کرتا پائجامہ سلوانے والوں کی تعداد اچانک بڑھی بھی ہے لیکن چونکہ عید قریب ہے تو اس صورت میں درزی زیادہ آرڈر نہیں لے پارہے ہیں کیونکہ وقت کی قلت ہے اور اتنے کم وقتوں میں زیادہ کپڑوں کی سلائی کرنا ممکن نہیں ہے۔
ٹیلرز اور کاریگروں کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال کی بنسبت اس برس تیس فیصد کم سلائی کا کام ہوا ہے، حالانکہ اس کے باوجود بڑے کارخانے پندرہ سے بیس ہزار کرتا پائجامہ کی سلائی کرچکے ہیں واضح ہوکہ رواں رمضان کا آخری عشرہ اختتام کی طرف ہے، عید کی آمد آمد ہے اورعید کے استقبال اور اس کی تیاریاں بھی جاری ہیں تاہم عید کے موقع پر تجارت کا کچھ شعبہ متاثر نظر آرہا ہے۔ کرتا پائجامہ سلائی کے لیے معروف پانچو ٹیلر کے مالک فاروق احمد کہتے ہیں کہ کورونا وبا کے دو سالوں بعد گزشتہ برس ضلع گیا میں عید کے لیے کپڑوں کی سلائی درزی ' کا کام کرنے والوں کے لیے راحت کا معاملہ تھا کیونکہ اس وقت تک شہر کے درزی خانوں میں سلائی کے لیے ہاؤس فل کے بورڈ لگ گئے تھے گزشتہ برس کام اتنے زیادہ آ گئے تھے کہ وہ جو لاک ڈاون میں سلائی کا کام چھوڑ چکے تھے وہ رمضان میں اپنے پرانے کام پر واپس آ گئے تھے لیکن اس دفعہ رمضان میں معاملہ اس کے برعکس ہے اس کی کئی وجہ ہے لیکن ان وجہوں میں سب سے بڑی وجہ مہنگائی بے روزگاری ہے اور دوسری وجہ ضلع میں رام نومی کے موقع پر پیش آئے واقعات ہیں جس کی وجہ سے گاؤں دیہات کے لوگوں کا باہر نکلنا نہیں ہوا۔
رمضان کے پہلے عشرے میں زیادہ تر کپڑے سلوانے والوں کی تعداد پہنچتی تھی لیکن ٹھیک اسی وقت پرتشدد واقعات کئی جگہوں پر پیش آگئے اب جب کہ کام زیادہ آیا ہے تو عید میں وقت بہت کم ہے حالانکہ ابھی تک پانچوں ٹیلرننگ ہاؤس پندرہ ہزار کے قریب کرتا پائجامہ کی سلائی کرچکا ہے۔ جب کہ اس سلسلے میں فیشن ڈیزائنر کے کاریگروں کا کہنا ہے کہ مارکیٹ اچھی ہے لیکن گزشتہ برس سے موازنہ کریں تو درزی خانوں میں کام میں کمی ہے حالانکہ انکا بھی یہی کہنا ہے کہ چونکہ عید کے لیے کپڑوں کی سلائی کا آرڈر دینے پانچ رمضان سے بیس رمضان تک ہی لوگوں کے پہنچنے کی روایت رہی ہے لیکن ٹھیک اسی وقت یعنی کہ پانچ رمضان کے بعد رام نومی کو لیکر تشدد ہوگئے اور اس کی افواہ ایسی پھیلی کہ شہر کے باہر سے لوگوں کی آمد نہیں ہوئی حالانکہ انکا یہ بھی ماننا ہے کہ گزشتہ برس رمضان اور ہندوں کے یہاں شادی کا لگن تھا اس وجہ سے درزی خانے بارہ رمضان کے بعد ہاؤس فل ہوگئے تھے اس برس بھی لگن ہے لیکن وہ عید کے بعد کے ہیں۔
کروڑوں کی ہے مارکیٹ
عید کے موقع پر سلائی والے کپڑوں کی فروخت زیادہ ہوتی ہے۔ خاص طور پر کرتا پائجامہ کے کپڑے زیادہ فروخت ہوتے ہیں اور اس کے بعد وہ کپڑے درزی خانوں تک پہنچتے ہیں فیشن ڈیزائنر کے سنیئر کاریگر محمد نیاز اور محمد محفوظ عالم نے کہا کہ ضلع کے درزی خانوں میں تیس ہزار سے زیادہ کاریگر کام کررہے ہیں کپڑے خریدنے سے لیکر سلائی اور سلائی میں استعمال ہونے والے دھاگے بٹن مزدوری اور اس کے بعد دھوبی کے یہاں کپڑوں کیا استری وغیرہ کو جوڑ کر دیکھیں تو ضلع میں صرف اس شعبے میں پچیس سے تیس کروڑ روپے کا کاروبار عید کے موقع پر چند ایام میں ہوتے ہیں۔
مزید پڑھیں:Muslims Offer Friday Namaz رمضان کے تیسرے جمعہ میں مصلیوں سے گلزار تھیں گیا کی مساجد
واضح رہے کہ شہر گیا میں کرتا پائجامہ سلنے والے اسپیشل درزی خانوں کی تعداد پچاس سے زیادہ ہے جب کہ ضلع بھر میں عام وخاص ٹیلرنگ ہاؤس کی تعداد ہزار سے زیادہ ہوگی ان درزی خانوں اور اس کے کاریگروں میں اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ مارکیٹ میں ایک عدد کرتا پائجامہ کی سلائی پانچ سو سے ایک ہزار روپے تک ہے خاص بات یہ بھی ہے کہ اس مرتبہ جنرل کرتا پائجامہ کی سلائی زیادہ ہے جب کہ گزشتہ برس ڈیزائن والے کرتے پائجامے کے ساتھ خان ڈریس خاص طور پر افغانی اور پاکستانی خان ڈریس کی طرز پر کپڑے کی سلائی زیادہ تھی۔