ریاست بہار کے ضلع گیا میں موسم گرما آتے ہی پانی کی سطح نیچے جانے کا معاملہ پیش آنے لگتا ہے۔ سب سے زیادہ مسلم آبادی والے علاقوں میں پانی کی قلت ہے۔ گرمی میں نیو علی گنج، مولانا آزاد کالونی، شیوپوری علی گنج، اقبال نگر گیوال بیگہ اور دوسرے محلوں میں پانی کی سطح نیچے چلی جاتی ہے حالانکہ ان میں کچھ علاقوں میں پانی کی سپلائی پائپ کے ذریعے ہوتی ہے جبکہ کچھ محلوں میں پائپ بچھانے کا کام ابھی بھی مکمل نہیں ہوا ہے، جس کی وجہ سے وہاں کے باشندوں کو پانی کے لیے کافی پریشانیوں کا سامنا ہے۔ Gaya Water Crisis
جل جیون ہریالی منصوبے کے باوجود ہر ایک گھر کے لیے پانی کا کنکشن ممکن نہیں ہوسکا ہے۔ مقامی باشندوں کا بارہا مطالبہ رہا ہے کہ جن علاقوں میں پانی کی سطح نیچے چلی جاتی ہے، وہاں بہتری لانے کے لئے حکمت عملی طے کی جائے اور اس مسئلے سے ہمیشہ کے لئے نجات دلائی جائے تاہم محکمہ اور متعلقہ اداروں کے حکام کے کانوں میں جوں تک نہیں رینگتی ہے، یہ اس ضلع کا حال ہے جس کو اسی ہفتے صدر جمہوریہ ہند رام ناتھ کووند کے ہاتھوں 'نیشنل واٹر ایوارڈ' National Water Award سے سرفراز کیا گیا ہے۔
ریاستی حکومت کے افسران کا دعوی ہے کہ بہار کی ایک اہم پہچان وزیر اعلی نتیش کمار کے ڈریم پروجیکٹ جل جیون ہریالی Jal Jeevan Haryali سے بھی ہے لیکن تعجب ہوگا کہ جب ہر ایک گھر میں نل کے پانی کے لئے دفاتر کے چکر کاٹنے کے باوجود شہر گیا کے علی گنج، مولانا آزاد کالونی، شیوپوری محلوں کی آبادی 'ہر ایک گھر کے لیے نل کا پانی سے محروم ہیں'۔ شیوپوری محلے کے سبکدوش سرکاری ملازم وریندر کمار کا کہنا ہے کہ انہوں نے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ سے لے کر سبھی متعلقہ دفاتر کا چکر کاٹا لیکن ان کے محلے کے لیے پینے کے پانی کا مسئلہ حل نہیں ہوا ہے۔ یہاں تک کہ ان کی اہلیہ جو سماجی کارکن تھیں انہوں نے اس مسئلے کو حل کرانے کی ہرممکن کوشش کی۔
انہوں نے کہا کہ افسوسناک واقعہ یہ ہوا کہ سرکاری دفاتر میں ہر دن دوڑ بھاگ کرنے کی وجہ سے ان کی اہلیہ بیماری کی زد میں آگئی اور ان کی موت ہو گئی لیکن آج تک 'نل کا جل نہیں مل سکا' ہے جبکہ اس سلسلے میں علی گنج کے محمد سعید کہتے ہیں کہ رمضان المبارک کا مہینہ شروع Water Shortage In Ramadan ہونے والا ہے۔ مارچ ماہ میں شدید گرمی پڑ رہی ہے۔ پانی کا مسئلہ درپیش ہے۔ میونسپل کارپوریشن سے اس مسئلے کو حل کرانے کی گہار لگائی گئی ہے۔ مولانا آزاد کالونی کے باشندہ محمد فیاض خان کہتے ہیں روزانہ پانی کا مسئلہ سنگین ہوتا جا رہا ہے، جس کے نتائج انتہائی خطرناک ہو سکتے ہیں پانی کی کمی اس لیے بھی ہے کہ بڈکو اور کارپوریشن کی نااہلی کی وجہ سے واٹر سپلائی اسکیموں کا صحیح نفاذ نہیں کیا جا سکاہے۔ جس کے باعث شدید گرمی اور رمضان المبارک کی آمد سے قبل پینے کے پانی کا بحران شدت اختیار کرگیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میونسپل کارپوریشن کی طرف سے کہا جاتا ہے کہ پینے کے پانی کی فراہمی کا معاملہ ان کے دائرہ اختیار سے باہر ہے۔ وہ اس مسئلے کا حل نہیں کر سکتے۔ جب اس سلسلے میں بڈکو کے افسران سے باشندوں کو راحت پہچانے کی بات کہی جاتی ہے تو وہ میونسپل کارپوریشن کو ذمہ دار بتاتے ہیں۔ ایسی صورت میں مسئلہ حل ہونے کے بجائے پیجیدہ ہوگیا ہے۔ میونسپل کارپوریشن کے عہدیدران سے ملنے کے بعد یقین دہانی کرائی جاتی ہے کہ پانی کا ٹینکر بھیجا جائے گا۔ اب سوال یہ ہے کہ کیا رمضان المبارک میں روزہ رکھ کر علی گنج اور مولانا آزاد کالونی کے لوگوں کو پانی ڈھونا پڑے گا؟ Gaya Water Crisis
علی گنج کے ایک اور باشندہ شاہجہاں خان کہتے ہیں کہ پانی کا بحران ہر سال شدت اختیار کر رہا ہے۔ میونسپل کارپوریشن کے میئر و ڈپٹی میئر سے باشندوں کا ایک وفد ملا ہے۔ رمضان میں ٹینکر بڑھانے کی بات کہی گئی ہے جبکہ اس سلسلے میں میونسپل کارپوریشن کے ڈپٹی میئر موہن شریواستو نے پانی سپلائی کرنے والی ایجنسی بڈکو کو ذمہ دار قرار دیا اور اپنی بے بسی کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے پانی کی فراہمی کے حوالے سے کارپوریشن کو کسی کام کو بھی کرنے سے منع کر دیا ہے۔ یہ حکومت کا نوٹیفکیشن ہے ایسی صورت میں کارپوریشن کے ہاتھوں میں کچھ نہیں ہے لیکن اگر یہی حال رہا تو میونسپل کارپوریشن کے عہدیدران مقامی لوگوں کے ساتھ بڈکو کے خلاف سڑکوں پر اتر کر احتجاج و مظاہرہ کریں گے۔
یہ بھی پڑھیں: Water Shortage in Pulwama: پلوامہ:ٹنکی تعمیر ہونے کے پندرہ سال بعد بھی لوگ پانی سے محروم
واضح رہے کہ گزشتہ کئی سالوں سے یہ معاملہ در پیش ہے۔ احتجاج و مظاہرے کے باوجود پانی کی فراہمی کے لئے پائپ بچھانے نے کے کام میں تیزی نہیں لائی گئی ہے، صرف یقین دہانی کرائی جاتی ہے کہ عنقریب مسئلہ حل ہوجائے گا تاہم تاحال مسئلہ قائم ہے۔ Gaya Water Crisis