ETV Bharat / state

دوسرے مرحلے کی ووٹنگ، مسلم ووٹرز کا ووٹ فیصلہ کن

author img

By

Published : Oct 30, 2020, 1:10 PM IST

بہار کی 243 اسمبلی سیٹوں کے لیے 71 نشستوں پر ووٹنگ ہو چکی ہے۔ باقی 172 نشستوں میں سے 94 نشستوں کے لیے ووٹنگ دوسرے مرحلے میں ہونا ہے۔

دوسرے مرحلے کی ووٹنگ، مسلم ووٹرز کا ووٹ فیصلہ کن
دوسرے مرحلے کی ووٹنگ، مسلم ووٹرز کا ووٹ فیصلہ کن

ریاست بہار میں دوسرے مرحلے کی ووٹنگ 3 نومبر کو ہوگی۔ دوسرے مرحلے میں 94 نشستوں پر انتخابات ہونے جارہا ہے۔ جس میں 17 اضلاع شامل ہیں۔ جس میں مغربی چمپارن، مشرقی چمپارن، گوپال گنج، سوان، سارن، مظفر پور، سیتامڑھی، شیوہر، مدھوبنی، دربھنگہ، سمستی پور، ویشالی، بیگوسرائے، کھگڑیہ، بھاگلپور، نالندا اور پٹنہ شامل ہیں۔ اس میں دو درجن نشستیں ایسی ہیں، جہاں مسلم ووٹرز کے ووٹ کا اثر ہے۔

بہار اسمبلی انتخابات میں مسلم ووٹرز عظیم اتحاد کو ووٹ دے رہے ہیں یا جے ڈی یو کی طرف جھکاؤ ڈالیں گے یا اویسی کے بنائے ہوئے اتحاد کی جانب جائیں گے۔ اس وقت اس پر سسپنس برقرار ہے۔ سنہ 2015 کے اسمبلی انتخابات سے اویسی کی نگاہ سیمانچل کے ساتھ ساتھ مسلم اکثریتی علاقوں پر بھی ہیں۔ لوک سبھا انتخابات میں اویسی کی پارٹی نے ایک مضبوط موجودگی کی کوشش کی تھی حالانکہ نشست تو نہیں ملی لیکن کشن گنج میں ان کے امیدوار اختر الایمان نے تقریبا تین لاکھ ووٹ حاصل کیے۔

اس بار اویسی نے اپیندر کشواہا کو وزیر اعلی بنانے کے لیے نیا اتحاد تشکیل دیا ہے۔ لیکن سیاسی ماہر ڈی ایم دیوکار کا کہنا ہے کہ 'مسلم ووٹرز بی جے پی کو شکست دینے کی پوری کوشش کرتے ہیں اور اس بار تین طلاق کے ساتھ رام مندر، این آر سی اور سی اے اے کا مسئلہ ہے۔ ایسی صورتحال میں زیادہ تر مسلم ووٹر جو جے ڈی یو کے ساتھ تھے اب وہ ووٹرز عظیم اتحاد کے ساتھ ہونگے۔ دیواکر نے کہا کہ 'مسلم ووٹرز بعض مقامات پر اویسی اتحاد اور جے ڈی یو کے امیدواروں کو ووٹ دے سکتے ہیں۔ وہیں جے ڈی یو کے قانون ساز کونسلر غلام رسول بالیاوی نے دعوی کیا ہے کہ 'نتیش کمار نے بہار کے مسلمانوں کے لیے بہت کچھ کیا ہے۔

بہار میں مسلم ووٹوں کی تعداد تقریبا 16 سے 17 فیصد ہے۔ سنہ 1990 سے پہلے مسلموں کا ووٹ ایکطرفہ کانگریس کو ملتا رہا۔ لالو پرساد نے 'مائی سمیکرن' کے ذریعہ مسلم ووٹوں پر کانگریس کی اجارہ داری کا خاتمہ کیا، لیکن سنہ 2005 میں جب نتیش کمار اقتدار میں آئے تو انہوں نے 'مائی سمیکرن' کو بھی ختم کرنا شروع کردیا۔ نتیش کے کام اور مسلم محبت کی وجہ سے انہیں مولانا نتیش بھی کہا جانے لگا تھا۔ چنانچہ بی جے پی کے ساتھ اتحاد کے باوجود نتیش کمار کو مسلمان بڑی تعداد میں ووٹ دیتے رہے۔

گذشتہ لوک سبھا انتخابات سے اویسی کی پارٹی کے داخلے کے بعد مسلم اکثریتی علاقوں میں بھی مسلم ووٹوں کی سیاست شروع ہوگئی۔ مسلم ووٹروں پر اویسی کا اتحاد بھی اب اپنا دعوے کرنے لگا ہے۔ سیمانچل کی 16 نشستوں کے علاوہ دربھنگہ میں دو سیٹیں اور مدھوبنی اور چمپارن میں 1-1 سیٹیں ایسی ہیں جہاں مسلم ووٹرز جیت اور ہارنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ یہاں پر تقریبا 30 فیصد مسلم آبادی ہے۔

اویسی کی پارٹی کی جن مسلم اکثریتی نشستوں پر نظر ہے اس میں سے، جوکیہاٹ، بِسفی، براری، بائسی، کیوٹی، سمستی پور، مہوا، جھنجھار پور، صاحب گنج، ڈھاکہ، برولی، شاہ پور، رگوناتھ پور، مخدوم پور اور صاحب پور کمال نشست پر آر جے ڈی کا قبضہ ہے۔ وہیں کانگریس کے پاس امور، بیتیاں ، نارکٹیا گنج، کدوا، کہلگاؤں، اورنگ آباد، وزیر گنج نشستیں ہیں۔ جبکہ پھلواری باجپٹی، داروندا اور سمری بختیار پور نشستوں پر جے ڈی یو کا قبضہ ہے۔

جہاں دوسرے مرحلے میں انتخابات ہونے ہیں جس میں بھاگلپور، دربھنگہ، مدھوبنی، سمستی پور، سوان، گوپال گنج اور بیگوسرائے مسلم ووٹ بینک کے معاملے میں اہم ہیں۔ واضح رہے کہ ووٹوں کی گنتی 10 نومبر کو ہوگی۔

ریاست بہار میں دوسرے مرحلے کی ووٹنگ 3 نومبر کو ہوگی۔ دوسرے مرحلے میں 94 نشستوں پر انتخابات ہونے جارہا ہے۔ جس میں 17 اضلاع شامل ہیں۔ جس میں مغربی چمپارن، مشرقی چمپارن، گوپال گنج، سوان، سارن، مظفر پور، سیتامڑھی، شیوہر، مدھوبنی، دربھنگہ، سمستی پور، ویشالی، بیگوسرائے، کھگڑیہ، بھاگلپور، نالندا اور پٹنہ شامل ہیں۔ اس میں دو درجن نشستیں ایسی ہیں، جہاں مسلم ووٹرز کے ووٹ کا اثر ہے۔

بہار اسمبلی انتخابات میں مسلم ووٹرز عظیم اتحاد کو ووٹ دے رہے ہیں یا جے ڈی یو کی طرف جھکاؤ ڈالیں گے یا اویسی کے بنائے ہوئے اتحاد کی جانب جائیں گے۔ اس وقت اس پر سسپنس برقرار ہے۔ سنہ 2015 کے اسمبلی انتخابات سے اویسی کی نگاہ سیمانچل کے ساتھ ساتھ مسلم اکثریتی علاقوں پر بھی ہیں۔ لوک سبھا انتخابات میں اویسی کی پارٹی نے ایک مضبوط موجودگی کی کوشش کی تھی حالانکہ نشست تو نہیں ملی لیکن کشن گنج میں ان کے امیدوار اختر الایمان نے تقریبا تین لاکھ ووٹ حاصل کیے۔

اس بار اویسی نے اپیندر کشواہا کو وزیر اعلی بنانے کے لیے نیا اتحاد تشکیل دیا ہے۔ لیکن سیاسی ماہر ڈی ایم دیوکار کا کہنا ہے کہ 'مسلم ووٹرز بی جے پی کو شکست دینے کی پوری کوشش کرتے ہیں اور اس بار تین طلاق کے ساتھ رام مندر، این آر سی اور سی اے اے کا مسئلہ ہے۔ ایسی صورتحال میں زیادہ تر مسلم ووٹر جو جے ڈی یو کے ساتھ تھے اب وہ ووٹرز عظیم اتحاد کے ساتھ ہونگے۔ دیواکر نے کہا کہ 'مسلم ووٹرز بعض مقامات پر اویسی اتحاد اور جے ڈی یو کے امیدواروں کو ووٹ دے سکتے ہیں۔ وہیں جے ڈی یو کے قانون ساز کونسلر غلام رسول بالیاوی نے دعوی کیا ہے کہ 'نتیش کمار نے بہار کے مسلمانوں کے لیے بہت کچھ کیا ہے۔

بہار میں مسلم ووٹوں کی تعداد تقریبا 16 سے 17 فیصد ہے۔ سنہ 1990 سے پہلے مسلموں کا ووٹ ایکطرفہ کانگریس کو ملتا رہا۔ لالو پرساد نے 'مائی سمیکرن' کے ذریعہ مسلم ووٹوں پر کانگریس کی اجارہ داری کا خاتمہ کیا، لیکن سنہ 2005 میں جب نتیش کمار اقتدار میں آئے تو انہوں نے 'مائی سمیکرن' کو بھی ختم کرنا شروع کردیا۔ نتیش کے کام اور مسلم محبت کی وجہ سے انہیں مولانا نتیش بھی کہا جانے لگا تھا۔ چنانچہ بی جے پی کے ساتھ اتحاد کے باوجود نتیش کمار کو مسلمان بڑی تعداد میں ووٹ دیتے رہے۔

گذشتہ لوک سبھا انتخابات سے اویسی کی پارٹی کے داخلے کے بعد مسلم اکثریتی علاقوں میں بھی مسلم ووٹوں کی سیاست شروع ہوگئی۔ مسلم ووٹروں پر اویسی کا اتحاد بھی اب اپنا دعوے کرنے لگا ہے۔ سیمانچل کی 16 نشستوں کے علاوہ دربھنگہ میں دو سیٹیں اور مدھوبنی اور چمپارن میں 1-1 سیٹیں ایسی ہیں جہاں مسلم ووٹرز جیت اور ہارنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ یہاں پر تقریبا 30 فیصد مسلم آبادی ہے۔

اویسی کی پارٹی کی جن مسلم اکثریتی نشستوں پر نظر ہے اس میں سے، جوکیہاٹ، بِسفی، براری، بائسی، کیوٹی، سمستی پور، مہوا، جھنجھار پور، صاحب گنج، ڈھاکہ، برولی، شاہ پور، رگوناتھ پور، مخدوم پور اور صاحب پور کمال نشست پر آر جے ڈی کا قبضہ ہے۔ وہیں کانگریس کے پاس امور، بیتیاں ، نارکٹیا گنج، کدوا، کہلگاؤں، اورنگ آباد، وزیر گنج نشستیں ہیں۔ جبکہ پھلواری باجپٹی، داروندا اور سمری بختیار پور نشستوں پر جے ڈی یو کا قبضہ ہے۔

جہاں دوسرے مرحلے میں انتخابات ہونے ہیں جس میں بھاگلپور، دربھنگہ، مدھوبنی، سمستی پور، سوان، گوپال گنج اور بیگوسرائے مسلم ووٹ بینک کے معاملے میں اہم ہیں۔ واضح رہے کہ ووٹوں کی گنتی 10 نومبر کو ہوگی۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.