گیا: ریاست بہار کے شہر گیا میں واقع معروف اقلیتی ادارہ مرزا غالب کالج ایک بار پھر سرخیوں میں ہے۔ اس بار کسی تنازع کو لے کر سرخیوں میں نہیں ہے بلکہ یہاں کے موجودہ سکریٹری سید شبیع عارفین شمسی کے ذریعہ کسی دوسرے ممبر کو سکریٹری بنانے کی تجویز پیش کرنے کو لے کر ہے۔ آج اسی تجویز کو لے کر گورننگ باڈی کی ایک ہنگامی میٹنگ طلب کی گئی تھی۔ جس میں گورننگ باڈی کے سبھی عہدیداران اور ممبران شامل ہوئے اور سکریٹری سید شبیع عارفین شمسی کے ذریعہ پیش کی گئی تجویز پر تبادلۂ خیال اور غور وفکر کیا گیا۔ دراصل سکریٹری شبیع عارفین شمسی نے ہی جی بی کی ہنگامی میٹنگ بلائی تھی جس میں انہوں نے اپنی صحت کا حوالہ دے کر تجویز رکھی تھی کہ وہ اپنی صحت کا خیال رکھنے کی غرض سے گورننگ باڈی کے اراکین سے گزارش کرتے ہیں کہ اُن کی جگہ پر کسی اور ممبر کو سکریٹری کی ذمہ داری دے دی جائے اور اُنہیں اس ذمہ داری سے سبکدوش کردیا جائے۔
یہ بھی پڑھیں:
Khanqah in Gaya بہار کی وہ خانقاہ جہاں سیرت النبی سننے ہندو طبقے کے لوگ بھی آتے ہیں
میٹنگ شام کے اوقات میں کالج میں منعقد ہوئی تھی۔ جس میں سبھی ممبران نے زور دے کر کہا کہ شبیع شمسی کی تجویز کو نامنظور کیا جاتا ہے۔ کیونکہ ان کی جانب سے جس طرح سے کالج کی ترقی فلاح و بہبود اور انتظامی امور کو انجام دینے کے لیے کڑی محنت و مشقت اور جدوجہد کی جاتی ہے وہ ناقابل فراموش ہے۔ گورننگ باڈی کے عہدیداران میں صدر مسعود منظر اور نائب صدر شاہ زماں انور، جوائنٹ سیکرٹری انعام حسن اور پروفیسر انچارج ڈاکٹر شجاعت علی خان اور دیگر ممبران نے واضح لفظوں میں یہ کہا کہ شبیع شمسی کی تجویز کسی حالت میں قبول نہیں کی جا سکتی ہے کیونکہ کالج کو ان کی سخت ضرورت ہے اور جو سبھی کام بہتر ڈھنگ سے انجام پا رہے ہیں کہیں نہ کہیں وہ بھی متاثر ہوں گے۔ گورننگ باڈی کی میٹنگ میں کوئی بھی ممبر نے اپنے ذمہ اس عہدے کو قبول کرنے کی رضامندی کا اظہار نہیں کیا۔ حالانکہ اس دوران سکریٹری زور دیتے رہے کہ انہیں کم از کم کچھ ماہ کے لیے ہی اس ذمہ داری سے بری کیا جائے لیکن کمیٹی کے کسی فرد نے ان کی اس تجویز کو قبول نہیں کیا۔
واضح ہو کہ یہ وہی مزا غالب کالج ہے جہاں اقتدار کو لے کر خاص طور پر سکریٹری بننے یا ہٹائے جانے کے معاملے کو لے کر ہمیشہ سرخیوں میں ہوتا ہے۔ یہاں سکریٹری بننے کے لیے متعدد بار جھگڑے اور ہنگامے بھی ہوئے لیکن یہ پہلا موقع تھا کہ کسی سکریٹری نے خود سے اپنے عہدے سے ہٹنے کے لیے تجویز پیش کیا تھا۔ البتہ یہ اور بات ہے کہ اس تجویز کو کمیٹی نے قبول نہیں کیا۔ حالانکہ یہ شہر میں موضوع بنا ہوا ہے کہ پہلی بار غالب کالج کی تاریخ میں یہ موقع آیا کہ سکریٹری نے خود سے کسی دوسرے ممبر کو سکریٹری بنانے کی تجویز پیش کی ہے، اس سے پہلے جتنی بار سکریٹری بنے ہیں یا ہٹائے گئے ہیں وہ ہنگامہ خیز معاملہ رہا ہے حالانکہ کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ غالب کالج میں اقتدار کی سیاست اور اقتدار میں رہنے کا یہ ایک ہتھکنڈہ ہے، ابھی کالج کمیٹی میں چونکہ موجودہ سکریٹری کے خاص لوگوں کی اکثریت ہے۔ اس وجہ سے جو ممبر سکریٹری بننا بھی چاہتے ہوں گے وہ اکثریت میں نہیں ہونے کی وجہ سے پیچھے ہٹ رہے ہیں۔
دوسری بات یہ کہ کالج میں ابھی کئی معاملے اور مسائل درپیش ہیں۔ اس وجہ سے یا تو سکریٹری وہ حل نہیں کرپائیں گے، اس وجہ سے وہ پیچھے ہٹنا چاہتے ہیں، یا پھر وہ دباؤ کی سیاست کررہے ہیں تاکہ آئندہ آنے والے دنوں میں کمیٹی کے افراد ان کی پیش کش کی وجہ سے ممنون ہوں اور اس وجہ سے ان کے خلاف عدم اعتماد کی تجویز پیش نہیں کی جاسکے۔ حالانکہ کالج کے پروفیسر انچارج ڈاکٹر شجاعت علی خان نے ان سب باتوں سے انکار کیا ہے اور کہا کہ سکریٹری نے اپنی صحت کی وجہ سے تجویز دی تھی لیکن کمیٹی نے یہ نامنظور کردیا ہے کہ سکریٹری شبیع شمسی اپنی صحت کی دیکھ بھال عہدے پر رہتے ہوئے بھی کرسکتے ہیں، کالج ترقی کی راہ پر گامزن ہے اور اسی طرح آگے رفتار برقرار رہے اس کی سبھی کوشش کرر ہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ پریشر پولٹکس نہیں ہے بلکہ ایک مشورے کے طور پر تجویز تھی، سکریٹری اور گورننگ باڈی کے سبھی عہدیداران اور اراکین متحرک ہیں اور کالج کی تعلیمی و تعمیراتی ترقی اور انتظامی امور میں لگے ہیں۔