یہ ضلع کانگریس کا گڑھ سمجھا جاتا ہے، اس کی وجہ یہ ہے کہ گزشتہ پارلیمنی انتخاب میں جہاں مودی لہر میں بڑا سے بڑا کانگریس لیڈر شکست کھا گئے تھے وہیں یہاں کے کانگریسی امیدوار مولانا اسرارالحق قاسمی نہ صرف انتخاب میں فطح حاصل کئے تھے بلکہ پچھلے الیکشن سے زیادہ ووٹ لانے میں کامیابی حاصل کئے تھے۔
یو پی اے ایک کے دوران جسٹس سچر صاحب نے ملک کے مسلمانوں کی تعلیمی، سیاسی، سماجی اور اقتصادی صورتحال پر رپورٹ پیش کی جس سے واضح ہوا کہ ریاست بہار کے کشن گنج کا مسلمان سب سے پچھڑا ہے۔
یو پی اے دو میں بھی کشن گنج کے ووٹروں نے آنکھ موند کر کانگریس پر اعتماد کیا اور اکثریت سے فتحیاب کرایا. لیکن نہ رکن پارلیمانی بدلے اور نہ ہی کشن گنج ضلع کے مسلمانوں کی حالت بدلی۔
اب مولانا اسرارالحق قاسمی اس دنیا میں نہیں ہیں، پارٹی نے ڈاکٹر جاوید آزاد کو دیکر قسمت آزمایا ہے، وہیں این ڈی اے اور مجلس اتحاد المسلمین کشن گنج سیٹ اپنے حق میں کرنے ہر ممکن کوشش کر رہی ہے. پارٹیاں جیتنا چاہتی ہے جبکہ عوام یہاں کی مفلسی، بےروزگاری اور جہالت کے جن کو ہراکر کشن گنج کو ترقی کی راہ پر گامزن دیکھنا چاہتی ہے۔
نمائندہ آئی ٹی بھارت نے کشن گنج کے بزرگوں، نوجوانوں اور حفاظ کرام سے علاقے کے مسائل پر خصوصی گفتگو کی اور جاننا چاہا کہ وہ کس بنا پر اس بار رکن پارلیمانی منتخب کریں گے۔