پٹنہ: بہار کے دانشور طبقہ نے بھی اس معاملے پر سخت ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے تعلیم کو بھگوا رنگ میں رنگنے کی کوشش قرار دی، جو بالکل غیر مناسب ہے۔ اس معاملے پر پٹنہ یونیورسٹی شعبہ اردو کے صدر پروفیسر شہاب ظفر اعظمی نے کہا کہ مرکزی وزارت نے تاریخ کو مسخ کرنے کی ناکام کوشش کی، مگر تاریخ بہرحال تاریخ ہے اسے کہاں کہاں سے ختم کیا جائے گا۔ سی بی ایس ای نصاب سے جس شاعر کی نظموں کو ہٹایا گیا، وہ کسی ایک ملک یا قوم کے شاعر نہیں ہیں بلکہ وہ ایک مفکر اور فلسفی ہیں۔ ان کی شعری معنویت ہر زمانے میں رہے گی اور جب بھی کوئی انقلاب برپا ہوگا، فیض کی نظم لوگ گنگنائیں گے۔ ان کی نظم کا عنوان 'ہم دیکھیں گے' ایک انقلاب کی علامت ہے، شاید اسی خوف کی وجہ سے سی بی ایس ای نے اپنے نصاب سے حذف کر دیا۔ یہ تعلیمی شعبہ اور نئی نسل کے ساتھ نا انصافی ہے۔ Intellectuals Angry Over Change In CBSE Syllabus
یہ بھی پڑھیں: CBSE Negligence: اردو میڈیم کے طلبہ کو ہندی و انگریزی زبان میں سوالنامہ دیا گیا
کالج آف کامرس کے صدر شعبہ اردو پروفیسر صفدر امام قادری نے کہا کہ مرکزی حکومت کا یہ متعصبانہ فیصلہ ہے، جس کی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔ تاریخ کے دو رخ ہوتے ہیں اور کتابوں میں دونوں رخ کو سامنے رکھا جاتا ہے تاکہ طلبا اس سے آگاہ ہو سکیں۔ اس سے قبل بھی مرلی منوہر جوشی کے وقت میں تعلیمی نصاب سے چیزوں کو ہٹانے کی مہم چلی تھی جسے اس وقت کے وزیر تعلیم ارجن سنگھ نے ناکام بنا دیا تھا۔ فیض احمد فیض کی شاعری ہر زمانے میں ہم آہنگ رہی ہے۔
پٹنہ یونیورسٹی کے استاد پروفیسر جاوید حیات نے کہا کہ حکومت وقت اپنی ناکامی اور تنقید سننا پسند نہیں کرتی، یہ ایک تاریخ ہے۔ ایمرجنسی کا واقعہ بھی اس ذیل میں آتا ہے، موجودہ حکومت بھی اسی نقشہ راہ پر ہے، فیض کی نظموں کو ہٹانے سے اردو ادب کا کوئی نقصان نہیں ہے، فیض پہلے بھی پڑھے جاتے تھے اور کل بھی پڑھے جائیں گے۔ Intellectuals Angry Over Change In CBSE Syllabus