ETV Bharat / state

'پشوپتی پارس کو نتیش کمار کی سفارش وزارت ملی'

author img

By

Published : Jul 8, 2021, 10:40 PM IST

مرکزی کابینہ میں رد و بدل ہوا ہے۔ تاہم سیاسی بیانات سے بہار میں ہلچل مچی ہوئی ہے۔ حزب اختلاف کی پارٹیوں نے وزیر اعلیٰ نتیش کمار پر تنقید کی ہے۔ آر جے ڈی کا کہنا ہے کہ نتیش کمار کرسی بچانے کے لیے ایک وزارت پر راضی ہو گئے ہیں۔ سیاسی تجزیہ نگار پروفیسر عبدالقادر کا ماننا ہے کہ نتیش کمار کو ایک نہیں دو وزارت سونپی گئی ہے۔ کیونکہ ایل جے پی کے پشوپتی پارس کو بھی مودی اور بی جے پی نتیش کمار کے کھاتے میں مان رہے ہیں۔

Prof Abdul Qadir
پروفیسر عبدالقادر

وزیراعظم نریندر مودی کی کابینہ میں رد و بدل کے بعد بہار میں الگ سیاست شروع ہوگئی ہے۔ خاص طور پر وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی پارٹی جے ڈی یو کا مودی کی نئی کابینہ میں شامل ہونا موضوع بحث ہے۔

Prof Abdul Qadir

بحث اس لیے نہیں کہ نتیش کمار کی پارٹی کابینہ میں شامل ہوئی ہے کیونکہ جے ڈی یو پہلے سے ہی این ڈی اے میں شامل ہے اور بی جے پی کے ساتھ ہے۔دراصل موضوع بحث ہے اس لیے ہے کیونکہ کہ سنہ 2019 کے پارلیمانی انتخابات کے بعد مودی حکومت پارٹ ٹو میں وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی پارٹی مودی کابینہ میں اسی لیے شامل نہیں ہوئی تھی کہ ان کی پارٹی کو ایک ہی وزارت سونپی جارہی تھی، نتیش کمار کم از کم دو مرکزی وزارت اپنی پارٹی کے لیے چاہ رہے تھے تاہم بات نہیں بننے پر انہوں نے شامل ہونے سے انکار کر دیا تھا۔

اب جب مودی کابینہ کے رد و بدل میں بھی نتیش کمار کی پارٹی کو ایک ہی وزارت ملی ہے تو بہار کے سیاسی گلیاروں میں چند سوال کھڑے ہورہے ہیں۔

معروف سیاسی تجزیہ نگار پروفیسر عبدالقادر کہتے ہیں کہ دراصل نتیش کمار " چھوٹے بھائی" کی پوزیشن میں ہیں۔ چونکہ 2019 میں وہ بڑے بھائی کے پوزیشن پر تھے اور وہ اس موقع کا فائدہ اٹھانا چاہتے تھے۔ لیکن بہار اسمبلی انتخابات میں جس طرح جے ڈی یو کا گراف نیچے گرا بی جے پی بہار میں بڑے بھائی کی پوزیشن پر بحال ہوگئی اور اب نتیش کمار کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ اس لیے وہ ایک ہی منسٹری پر راضی ہو گئے۔
عبدالقادر کا ماننا ہے کہ نتیش کمار اپنی پارٹی سے رہنما سے زیادہ پشوپتی پارس کو وزیر بنانے کے خواہشمند تھے۔ تکنیکی طور پر پشوپتی پارس کا نام تو ایل جے پی سے ہے تاہم نتیش کمار کے ہی سفارش پر وہ وزیر بنے ہیں۔

اس لیے کہا جا رہا ہے کہ پارس کے لیے کی گئی سفارش کی وجہ سے جے ڈی یو کو دوسری منسٹری نہیں دی گئی ہے۔ مونگیر کے رکن پارلیمنٹ اور نتیش کے قریبی للن سنگھ جنہوں نے ایل جے پی کو دو گروپوں میں تقسیم کرنے میں سب سے بڑا رول ادا کیا ہے انہیں وزیر نہیں بنائے جانے پر عبدالقادر کہتے ہیں کہ پہلے تو طے تھا کہ وزیر بنیں گے لیکن جو کابینہ کی تشکیل ہوئی ہے اس میں یوپی، پنجاب اور دیگر ریاستوں میں ہونے والے انتخابات کا خیال رکھا گیا ہے۔

للن سنگھ جس برادری سے ہیں اسی برادری کے گری راج سنگھ مرکز میں وزیر ہیں اس لیے للن سنگھ کا پتہ صاف ہوگیا ہے۔ عبدالقادر کہتے ہیں کہ حیرانی اس بات کی ہے کہ بہار کے مودی " ششیل کمار مودی" کو وزیر نہیں بنایا گیا ہے اور بی جے پی کا یہ فیصلہ نتیش کمار پر سیدھے طور پر نشانہ ہے۔ کیونکہ بہار میں نتیش کمار کے لیے سب سے قریبی اور بھروسے مند شخص بی جے پی میں اگر کوئی ہے تو وہ ششیل مودی تھے۔

سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ششیل مودی کو نتیش کمار سے وفاداری کا خمیازہ بھگتنا پڑا ہے۔ کیونکہ مودی میں بی جے پی میں ضرور تھے لیکن ان کا جھکاؤ جے ڈی یو اور نتیش کمار کی طرف رہا ہے۔ جبکہ تجربہ کی بات کی جائے تو نئی کابینہ میں کئی ایسے وزیر بنائے گئے ہیں جو ششیل کمار کے برابری کے نہیں ہیں۔ ششیل کمار کے پاس تجربہ بھی ہے۔ نتیش کمار کی سرکار میں قریب پندرہ برسوں تک ششیل مودی کابینہ میں دوسرے نمبر پر رہے۔ فنانس ڈپارٹمنٹ سمیت کئی اہم ڈیپارٹمنٹ میں وزیر رہے۔ جی ایس ٹی کونسل میں ان کا ٹریک ریکارڈ بھی متاثر کن رہا۔
مزید پڑھیں:


واضح رہے کہ بہار میں سیاسی گہماگہمی جب بھی رفتار پکڑتی ہے سیاست میں کوئی بڑا فیصلہ یا پھر ردو بدل ہوتا ہے۔ مودی کی کابینہ میں چھوٹے مودی کو جگہ نہیں ملنا اسے جے ڈی یو کا نقصان مانا جارہا ہے کیونکہ ششیل کمار نتیش کمار کے بے حد قریبی رہے ہیں اور نتیش کے فیصلے کے ساتھ ہمیشہ کھڑے ہوتے تھے۔

وزیراعظم نریندر مودی کی کابینہ میں رد و بدل کے بعد بہار میں الگ سیاست شروع ہوگئی ہے۔ خاص طور پر وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی پارٹی جے ڈی یو کا مودی کی نئی کابینہ میں شامل ہونا موضوع بحث ہے۔

Prof Abdul Qadir

بحث اس لیے نہیں کہ نتیش کمار کی پارٹی کابینہ میں شامل ہوئی ہے کیونکہ جے ڈی یو پہلے سے ہی این ڈی اے میں شامل ہے اور بی جے پی کے ساتھ ہے۔دراصل موضوع بحث ہے اس لیے ہے کیونکہ کہ سنہ 2019 کے پارلیمانی انتخابات کے بعد مودی حکومت پارٹ ٹو میں وزیر اعلیٰ نتیش کمار کی پارٹی مودی کابینہ میں اسی لیے شامل نہیں ہوئی تھی کہ ان کی پارٹی کو ایک ہی وزارت سونپی جارہی تھی، نتیش کمار کم از کم دو مرکزی وزارت اپنی پارٹی کے لیے چاہ رہے تھے تاہم بات نہیں بننے پر انہوں نے شامل ہونے سے انکار کر دیا تھا۔

اب جب مودی کابینہ کے رد و بدل میں بھی نتیش کمار کی پارٹی کو ایک ہی وزارت ملی ہے تو بہار کے سیاسی گلیاروں میں چند سوال کھڑے ہورہے ہیں۔

معروف سیاسی تجزیہ نگار پروفیسر عبدالقادر کہتے ہیں کہ دراصل نتیش کمار " چھوٹے بھائی" کی پوزیشن میں ہیں۔ چونکہ 2019 میں وہ بڑے بھائی کے پوزیشن پر تھے اور وہ اس موقع کا فائدہ اٹھانا چاہتے تھے۔ لیکن بہار اسمبلی انتخابات میں جس طرح جے ڈی یو کا گراف نیچے گرا بی جے پی بہار میں بڑے بھائی کی پوزیشن پر بحال ہوگئی اور اب نتیش کمار کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔ اس لیے وہ ایک ہی منسٹری پر راضی ہو گئے۔
عبدالقادر کا ماننا ہے کہ نتیش کمار اپنی پارٹی سے رہنما سے زیادہ پشوپتی پارس کو وزیر بنانے کے خواہشمند تھے۔ تکنیکی طور پر پشوپتی پارس کا نام تو ایل جے پی سے ہے تاہم نتیش کمار کے ہی سفارش پر وہ وزیر بنے ہیں۔

اس لیے کہا جا رہا ہے کہ پارس کے لیے کی گئی سفارش کی وجہ سے جے ڈی یو کو دوسری منسٹری نہیں دی گئی ہے۔ مونگیر کے رکن پارلیمنٹ اور نتیش کے قریبی للن سنگھ جنہوں نے ایل جے پی کو دو گروپوں میں تقسیم کرنے میں سب سے بڑا رول ادا کیا ہے انہیں وزیر نہیں بنائے جانے پر عبدالقادر کہتے ہیں کہ پہلے تو طے تھا کہ وزیر بنیں گے لیکن جو کابینہ کی تشکیل ہوئی ہے اس میں یوپی، پنجاب اور دیگر ریاستوں میں ہونے والے انتخابات کا خیال رکھا گیا ہے۔

للن سنگھ جس برادری سے ہیں اسی برادری کے گری راج سنگھ مرکز میں وزیر ہیں اس لیے للن سنگھ کا پتہ صاف ہوگیا ہے۔ عبدالقادر کہتے ہیں کہ حیرانی اس بات کی ہے کہ بہار کے مودی " ششیل کمار مودی" کو وزیر نہیں بنایا گیا ہے اور بی جے پی کا یہ فیصلہ نتیش کمار پر سیدھے طور پر نشانہ ہے۔ کیونکہ بہار میں نتیش کمار کے لیے سب سے قریبی اور بھروسے مند شخص بی جے پی میں اگر کوئی ہے تو وہ ششیل مودی تھے۔

سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ششیل مودی کو نتیش کمار سے وفاداری کا خمیازہ بھگتنا پڑا ہے۔ کیونکہ مودی میں بی جے پی میں ضرور تھے لیکن ان کا جھکاؤ جے ڈی یو اور نتیش کمار کی طرف رہا ہے۔ جبکہ تجربہ کی بات کی جائے تو نئی کابینہ میں کئی ایسے وزیر بنائے گئے ہیں جو ششیل کمار کے برابری کے نہیں ہیں۔ ششیل کمار کے پاس تجربہ بھی ہے۔ نتیش کمار کی سرکار میں قریب پندرہ برسوں تک ششیل مودی کابینہ میں دوسرے نمبر پر رہے۔ فنانس ڈپارٹمنٹ سمیت کئی اہم ڈیپارٹمنٹ میں وزیر رہے۔ جی ایس ٹی کونسل میں ان کا ٹریک ریکارڈ بھی متاثر کن رہا۔
مزید پڑھیں:


واضح رہے کہ بہار میں سیاسی گہماگہمی جب بھی رفتار پکڑتی ہے سیاست میں کوئی بڑا فیصلہ یا پھر ردو بدل ہوتا ہے۔ مودی کی کابینہ میں چھوٹے مودی کو جگہ نہیں ملنا اسے جے ڈی یو کا نقصان مانا جارہا ہے کیونکہ ششیل کمار نتیش کمار کے بے حد قریبی رہے ہیں اور نتیش کے فیصلے کے ساتھ ہمیشہ کھڑے ہوتے تھے۔

ETV Bharat Logo

Copyright © 2024 Ushodaya Enterprises Pvt. Ltd., All Rights Reserved.