بہار کے پورنیہ ضلع ہیڈکوارٹر سے 30کلومیٹر کے فاصلے پر سری نگر بلاک میں سنگھیا پنچایت میں ”پاکستان ٹولہ“ نامی گاوں عرصہ دراز سے آباد ہے۔
بھارت میں بسے اس پاکستان کے لیے لوگوں میں کوئی عداوت نہیں ہے بلکہ پیارو محبت ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے اس پاکستان میں کو ئی مسجد یا مدرسہ نہیں ہے اور نہ ہی کوئی مسلمان ہے۔
اس گاوں کا نام پاکستان کب اور کیسے پڑا، تعلق سے تحقیق کرنے پر دو وجہ تسمیہ سامنے آتی ہیں۔
کچھ لوگ بتاتے ہیں تقسیم ہند سے قبل یہاں ہندو اور مسلم ایک ہی گاؤں میں ساتھ ساتھ رہتے تھے مگر سنہ 1947 میں بٹوارے کے وقت یہاں مقیم مسلم خاندان پاکستان چلے گئے۔ یہاں کے لوگوں نے آپسی محبت کی مثال پیش کرتے ہوئے مسلم بھائیوں کی یاد میں اس گاؤں کا نام پاکستان رکھ دیا۔
دوسری وجہ یہ بتاتے ہیں کہ 1971ء میں مشرقی پاکستان سے کچھ پناہ گزین یہاں آئے اور انہوں نے ایک 'ٹولہ' بسا لیا جس کا نام پاکستان رکھ دیا۔ بنگلہ دیش بننے کے بعد پھر یہ لوگ چلے گئے، مگر اس علاقے کا نام 'پاکستان ٹولہ' ہی رہ گیا۔سرکاری فائلوں میں بھی یہی نام درج ہو گیا۔ یہاں کے باشندوں کے شناختی کارڈ پر بھی 'پاکستان ٹولہ' ہی درج ہے۔
اس پاکستان میں بسے سارے باشندے ہندو ہیں:
اس پاکستانی ٹولہ میں صدیوں سے سنتھالی قبائل آباد ہیں۔ ان کی اپنی ایک مخصوص زبان ہے۔ ہندی ٹوٹی پھوٹی سمجھتے اور بولتے ہی۔ یہ ہندو مذہب کے پیرو کارہیں۔
جگہ جگہ مٹی کے چبوترے پر شولنگ بنے ہو ئے ہیں جن کی یہ لوگ پوجا کرتے ہیں۔
پاکستان نام ہونے سے لوگ شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں:
گاؤں کے باشندے بتاتے ہیں کہ پورنیہ ضلع کے بہت کم لوگ اس نام سے واقف ہیں۔ روزگار کے سلسلے میں جب دوسری ریاستوں کا سفر کرتے ہیں تو علاقے کا نام بتانے کی وجہ سے لوگ شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ انہیں یقین نہیں ہوتا بھارت میں اس نام کا بھی کوئی علاقہ ہے۔ انہیں شناختی کارڈ اور راشن کارڈ دکھانے پر ہی وہ مطمئن ہوتے ہیں۔
لوگوں کی محدود زندگی :
پاکستان ٹولہ پورنیہ شہر سے بالکل کٹا ہوا ہے۔ اس گاؤں کے 95 فیصد لوگ تعلیم سے محروم ہیں۔ مگر اب تعلیم کو لے کر بیداری آ رہی ہے اور دوسرے گاؤں کی اسکولوں میں داخلہ لے رہے ہیں۔ بچوں سے گفتگو کرنے پر ان کے اندر تعلیم کی للک صاف جھلکتی ہے۔ کہتے ہیں اگر یہاں اسکول ہو جائے تو تین چار کلو میٹر کی مسافت سے بچ جائیں گے۔
یہاں کے لوگوں کو صبح و شام صرف اپنے خاندان اور بچوں کی پرورش کی فکر ستاتی رہتی ہے۔ غریب اور خط افلاس سے نیچے کی زندگی گزاررہے لوگوں کے لیے حکومت کے ذریعے چلائی جارہی کوئی اسکیم ل مہیا نہیں ہے۔ دو وقت کی روٹی کے لیے یہ لوگ دن بھر مزدوری کرتے ہیں۔ زیادہ تر لوگ روزگار کے لیے دوسری ریاستوں کا رخ کرتے ہیں۔
لوگ بنیادی سہولیات سے محروم ہیں:
”پاکستان ٹولہ“ کی یاد لیڈروں کو صرف انتخاب کے وقت آتی ہے. اس گاؤں میں تقریباً چارسو ووٹرز ہیں اور مجموعی طور پر 1200 پر مشتمل آبادی ہے۔ یہ گاؤں ترقیاتی کاموں سے کوسوں دور ہے۔ چاروں طرف ندیوں سے گھرا پاکستان ٹولہ پہلے ٹاپو کی شکل میں تھا۔ کچھ سال قبل پل بنا تو اب دوسری جانب سے لوگ اس گاؤں میں آتے جاتے دکھائی دیتے ہیں۔
اس گاؤں کے لوگ سڑک، بجلی، ہسپتال، آنگن باڑی، پینے کے لیے صاف پانی تک کے لیے جوجھ رہے ہیں۔غربت کے مارے اس گاؤں کے لوگوں کے فلاح کے لیے کسی بھی سطح سے کوشش ہوتے نہیں دکھائی دیتی۔
بڑا سوال یہ ہے حکومت کس بنا پر گاؤں گاؤں ترقیاتی کاموں کا دعوی کرتی ہے۔ یہاں تو اس دعوے کی قلعی کھلتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔