پٹنہ: پروگرام کی صدارت معروف افسانہ نگار و اردو مشاورتی کمیٹی کے سابق چیئرمین شفیع مشہدی نے کی، اس موقع پر مرحوم خورشید عارفی کی آخری تصنیف India under RSS and BJP roll کا اجراء عمل میں آیا۔ اپنے صدارتی خطاب میں شفیع مشہدی نے کہا کہ آج خورشید انوار عارفی ہمارے درمیان موجود نہیں ہیں لیکن ان کی کتابیں اور ان کی فکر ہمیں ان کی زندگی کا احساس دلانے کے لیے کافی ہے، مرحوم عارفی علم و دانش کے خورشید تاباں تھے جس کی روشنی جہل کے پردے کو چاک کرتی تھی اور کرتی رہے گی۔ ان کی کتابیں بڑی قیمتی اور معلوماتی ہیں۔ ان کی آخری کتاب 'انڈیا انڈر آر ایس ایس اینڈ بی جے پی رول' کی قدر و قیمت کا صحیح اندازہ آج سے پچاس سال بعد ہوگا۔
ملی کونسل کے قومی نائب صدر مولانا انیس الرحمن قاسمی نے کہا کہ مرحوم عارفی سے میرے دیرینہ تعلقات تھے جو 35 سالوں پر محیط ہے، عارفی صاحب کی زندگی صحافت، تحریکات اور طویل جدوجہد سے عبارت تھی، وہ انتہائی غور و فکر اور تدبر کے بعد قلم اٹھایا کرتے تھے ۔ ان کی تحریریں گہرے غور و فکر کی غماز تھیں، وقت کا صحیح استعمال ان کی زندگی کا امتیازی پہلو تھا۔ عارفی صاحب ملی کونسل و دیگر تنظیموں کے کاموں سے خود کو وابستہ رکھتے تھے۔ باالخصوص وہ لڑکیوں کی تعلیم کے لیے کوشاں رہتے تھے، وہ ایک بابصیرت اور دوراندیش شخص تھے۔
سمپوزیم کا افتتاح ملی کونسل کے کارگزار جنرل سکریٹری مولانا نافع عارفی کے مقالہ سے ہوا، انہوں نے مرحوم عارفی کی صحافتی اور ادبی خدمات پر مقالہ پیش کیا۔ ڈاکٹر نور السلام ندوی نے کہا کہ خورشید انوار عارفی نے اپنی زندگی میں بہت سے نشیب و فراز دیکھے ہوں گے لیکن انہوں نے صحافت کو کبھی تجارت اور معاش کا ذریعہ نہیں بنایا۔ ان کے قلم نے صحافت کو وقار اور اعتبار بخشا۔ اس موقع پر مرحوم عارفی کی صاحبزادی فرح عارفی نے اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ابا کی پوری زندگی صحافت اور ملی تحریک کے لیے وقف تھی۔ اس موقع پر سیما عارفی، مولانا عبد الواحد ندوی نے بھی اظہار خیال کیا۔ مولانا انیس الرحمن قاسمی کی دعا پر سمپوزیم اختتام ہوا۔
یہ بھی پڑھیں: Bihar Urdu Translator Result 2022:اردو مترجم کے نتائج میں عدمِ شفافیت سے طلباء میں شدید ناراضگی