پٹنہ:تاریخ اور تحقیق میں بہت گہرا رشتہ ہے، مورخ بننے کے لیے محققانہ صلاحیت کا ہونا ضروری ہے، اس کے بغیر اچھی تاریخ نہیں لکھی جا سکتی، تخلیق، تحقیق اور تنقید میں سب سے مشکل تخلیق ہے، اس کے بعد تحقیق یا تنقید کی جاتی ہے، تخلیق ایک عطیہ خدا وندی ہے جو ہر شخص کو ودیعت نہیں کیا جاتا، یہ ایک وہبی صلاحیت ہے جس کے تحت شاعر یا ادیب اپنی تخلیقات کو وجود بخشتا ہے، ہاں اس کو نکھارنے اور جلا بخشنے کے لیے مطالعات بنیادی اہمیت کے حامل ہیں، مطالعے سے تخلیق، تنقید اور تاریخ سب میں نکھار پیدا ہوتا ہے. بغیر تحقیق کے کوئی ادبی تاریخ مکمل نہیں کی ہو سکتی۔
مذکورہ خیالات کا اظہار سابق صدر شعبہ اردو و مولانا مظہر الحق عربی فارسی یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر اعجاز علی ارشد نے شعبہ اردو پٹنہ یونیورسٹی میں منعقد سمینار بعنوان "بہار میں اردو تحقیق و تاریخ کی صورت حال" میں موجود سامعین، طلبہ و طالبات سے کیا. سمینار کا آغاز طالب علم شہباز عالم کی تلاوت کلام پاک سے ہوا جبکہ لاڈلی پروین نے بارگاہ رسالت میں نعت پاک کا ہدیہ پیش کیا، نظامت کے فرائض ریسرچ اسکالر شاہد وصی نے بحسن و خوبی انجام دیئے. سمینار کے اغراض و مقاصد پر روشنی ڈالتے ہوئے صدر شعبہ اردو پروفیسر شہاب ظفر اعظمی نے کہا کہ تحقیق کو بہت سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے، تحقیق کے لیے اصل متن کی قرات بہت ضروری ہے، بغیر تحقیق کے کوئی بھی تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی۔
مزید پڑھیں:پٹنہ یونیورسٹی میں 'اردو صحافت کل،آج اور کل' پر سمینار منعقد
سمینار کے مہمان خصوصی بہار اردو اکادمی کے سابق سکریٹری و معروف افسانہ نگار نے کہا کہ اب ہمیں جامعاتی تحقیق کے ساتھ آزادانہ طور پر بھی تحقیق کرنی چاہیے کیوں کہ جن تحقیقات کے لئے محدود وقت معین ہوتا ہے اس میں محقق بڑی حد تک محدودیت کی وجہ سے تحقیق کا حق ادا نہیں کر پاتے. سمینار سے سابق رکن اسمبلی ڈاکٹر اظہار احمد نے بھی اظہار خیال کیا. اخیر میں مہمانوں کا شکریہ پروفیسر جاوید حیات نے ادا کیا۔