ریاست بہار کے سیمانچل خطے کا ضلع ارریہ نہایت ہی پسماندہ مانا جاتا ہے، یہاں کے لوگوں میں ناخواندگی کا تناسب سب سے زیادہ ہے۔
اس کی سب سے بڑی وجہ یہاں کے لوگوں میں تعلیم کے تئیں بیدار نہ ہونا ہے، تعلیمی بیداری کے لیے ہر ضلع میں حکومت کی جانب سے ایک ضلع لائبریری ہوتی ہے جو تعلیمی فضا بنانے میں معاون ثابت ہوتی ہے اور شہر کے دانشور و طلبہ دیگر جگہوں پر جانے کے بجائے لائبریری کا رخ کرتے ہیں اور یہاں سے کچھ حاصل کر کے جاتے ہیں۔
ارریہ کلکٹریٹ سے متصل ایک سرکاری کتب خانہ ہے، شہر میں پورے ضلع کا یہ واحد کتب خانہ ہے پھر بھی نظم و نسق کے اعتبار سے قابل رحم اور حکومت کی بے توجہی کا شکار ہے۔
عمارت شاندار ہے مگر اندرون خانہ کتب بینوں سے محروم ہے۔
اس کتب خانے میں اردو، انگلش اور ہندی زبان میں ادب کی اہم کتابیں موجود ہیں، اس لائبریری میں مختلف زبان کے روزانہ پانچ اخبارات آتے ہیں، مگر پڑھنے والوں کی کمی رہتی ہے، کبھی کبھی لوگ ادھر کا بھی رخ کر لیتے ہیں۔
ارریہ کو ضلع بنے 28 برس ہو گئے، مگر بد قسمتی کہیئے کہ ارریہ کا یہ واحد سب ڈویژنل سرکاری لائبریری ضلع لائبریری میں تبدیل نہیں ہو پایا جس وجہ سے یہ لائبریری محدود ہو کر رہ گئی ہے۔
نظم و نسق خستہ ہے، ملازم کی بھاری قلت ہے جس وجہ سے یہ اپنا دائرہ وسیع نہیں کر پا رہا ہے، یہاں ادبی کتب کے ساتھ ساتھ نصاب کی کتابیں بھی موجود ہیں مگر ملازم نہ ہونے سے اس کا رکھ رکھاؤ درست نہیں ہو پاتا۔
ضلع انتظامیہ کی جانب سے بھی اس لائبریری کو مکمل طور پر نظر انداز کردیا گیا ہے، یہاں کے ملازم کو سال میں ایک بار تنخواہ ملتی ہے جس وجہ سے لائبریری کو مستقل چلانے میں دشواریوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔
لائبریری اسسٹنٹ ادئے کمار نے کہا کہ ' سال میں ایک بار 52 سو روپے ملتے ہیں جو آج کے مہنگائی کے حساب سے ناکافی ہے، اتنے کم میں گھریلو ضروریات کو پورا کرنا مشکل ہوتا ہے ، پڑوسیوں سے قرض تک لینے پڑتے ہیں۔'
ادئے کمار نے کہا کہ ' محض دو کمروں پر مشتمل اس لائبریری میں جو بچے پڑھنے آتے ہیں ان کے نصاب کی پوری کتابیں بھی موجود نہیں ہیں، بقدر ضرورت دوسری جگہوں سے آڈر پر منگا کر کتاب فراہم کرائی جاتی ہے۔'
واضح رہے کہ اس سرکاری لائبریری کی دیکھ بھال کے لیے ایک عدد گارڈ بھی مہیا نہیں ہے۔