ممتاز ریاضی داں ڈاکٹر وششٹھ نارائن سنگھ کی پوری زندگی گمنامی اور اندھیرے میں ہی گزر گئی۔ان کے انتقال کے بعد ان کی کئی افسوسناک تصاویر سامنے آئی ہیں۔
اتنی بڑی شخصیت کے انتقال کے بعد ، پی ایم سی ایچ انتظامیہ بغیر کسی انتظام کے ہسپتال کے احاطے ایسے ہی چھوڑ دیا۔
ڈاکٹر وششٹھ نارائن سنگھ کی پیدائش بھوجپور ضلع کے بسنت پور گاؤں میں 2 اپریل 1942 کو ہوئی تھی۔ وہ گذشتہ 40 برسوں سے ذہنی امراض میں مبتلا تھے اور پی ایم سی ایچ میں زیر علاج تھے۔
اس کے بعد ، پی ایم سی ایچ انتظامیہ کا سخت چہرہ دیکھا گیا۔ ان کی لاش کو بغیر کسی انتظام کے باہر کا راستہ دکھایا گیا ۔ ان کے لواحقین کافی وقت تک لاچار کھڑے رہے۔ اس سے بڑی بے عزتی اور کیا ہوسکتی ہے۔
وہ شخص جس کی صلاحیتوں کو پوری دنیا میں جانا جاتا ہے۔ اس کی موت پر ایسی تصویر دیکھنے کو ملیں گی۔ کسی نے اس کا تصور بھی نہیں کیا ہوگا۔ ایک طرف ان کے اہلخانہ کی آنکھوں سے آنسو نہیں رک رہا ہے۔ دوسری طرف پی ایم سی ایچ کے اس طرح کے سلوک نے انہیں اور زیادہ درد دے دیا۔ پی ایم سی ایچ انتظامیہ نے صرف ڈیڈ سرٹیفکیٹ ان کے اہل خانہ کو دے دیا اور کوئی سہولیت نہیں دی۔
یہاں تک کہ ایک ایمبولینس نہیں تھی۔ تاکہ وششٹھ نارائن سنگھ کے اہلخانہ کے افراد ان کو احترام کے ساتھ لاش لے جاسکیں۔ اسی اثنا میں اس غیر حساس صورتحال پر ان کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ انہیں حکومت پر کوئی اعتماد نہیں ہے۔ کسی افسر نے بھی بہتری لانے کی کوشش نہیں کی۔
وہ سنہ 1971 میں بھارت واپس لوٹ آئے۔ سنہ 1971 میں انہوں نے شادی کر لی مگر ان کی ازدوجی زیادہ دنوں تک جاری نہ رہ سکی۔ کچھ دنوں بعد بعد ان کی اہلیہ ان سے الگ ہوگئی۔ سنہ 1972 میں وہ آئی ٹی کانپور سے وابستہ ہوگئے۔
سنہ 1974 میں انہیں دل کا دورہ پڑا اس کے بعد وہ جانبر ہو سکے اور مسلسل بیمار رہنے لگے۔
اہل خانہ نے یہاں بتایا کہ سیزو فرینیانامی مرض سے متاثر سنگھ کے منہ سے آج صبح خون نکلنے لگا۔ اس کے بعد آناً فاناً انہیں فوری طور پر پی ایم سی ایچ میں داخل کرایا گیا، جہاں ڈاکٹروں نے انہیں مردہ قرار دے دیا۔
سنگھ گزشتہ کئی برسوں سے بیمار تھے۔ ان کے جسم میں سوڈیم کی مقدار بہت کم ہو جانے کے بعد انہیں پی ایم سی ایچ میں داخل کرایا تھا۔
اگرچہ، سوڈیم چڑھائے جانے کے بعد وہ بات چیت کرنے لگے تھے اور ٹھیک ہونے پر ڈاکٹروں کو چھٹی دے دی تھی۔ جمعرات کو گھر والے انہیں دوبارہ ہسپتال لے گئے، جہاں ڈاکٹروں نے انہیں مردہ قرار دے دیا۔
سنہ 1992 میں انہیں سوان میں ایک درخت کے نیچے بیٹھے دیکھا گیا، وہیں حکومت سے بھی جو انہیں مدد اور اعزاز ملنا چاہیے تھا وہ بھی نصیب نہیں ہوسکا۔