وزیراعلیٰ نتیش کمار کے پاس مسلم رکن اسمبلی نہیں ہیں تاہم ان کے پاس متبادل ہے۔
حکمران جماعت جے ڈی یو کے مسلم امیدواروں کی شکست کی وجہ سے اب سب سے بڑا سوال یہ پیدا ہو گیا ہے کہ کیا بہار حکومت میں مسلمانوں کو حصہ داری ملے گی؟
یا پھر نتیش کمار اس بار مسلمانوں کے تئیں اپنی ہمدردی کے اظہار سے منہ پھیر لیں گے؟
اس کی وجہ یہ ہے کہ نتیش کمار کی پارٹی کے گیارہ مسلم نوجوانوں کی ہار ہوئی ہے۔
جے ڈی یو نے اس مرتبہ سب سے زیادہ گیارہ سیٹ دیے تھے باوجود کہ ایک بھی امیدوار جیت نہیں درج کر پائے۔
سابق وزیر نوشاد عالم سے لے کر گزشتہ حکومت میں محکمہ اقلیتی فلاح کی ذمہ داری سنبھالنے والے فیروز عالم عرف خورشید عالم سمیت پارٹی کے کئی سینئر مسلم رہنماؤں کی ہار ہوچکی ہے۔
حالانکہ جدیو کے پاس مسلم وزیر بنانے کا متبادل راستہ ہے۔
پارٹی میں فلحال چار مسلم ایم ایل سی ہیں جس میں مولانا غلام رسول بلیاوی پروفیسر غلام غوث۔
تنویر اختر اور خالد انور ہیں جبکہ این ڈی اے کی بڑی پارٹی بی جے پی اور چھوٹی پارٹیوں میں ہم اور وی آئی پی پارٹی سے نا تو مسلم امیدوار کوٹکٹ دی گئی تھی اور نہ ہی ان کے پاس مسلم ایم ایل سی ہیں۔
ایسے میں کئی طرح کے سوال اب نتائج کے بعد پیدا ہونے لگے ہیں۔
اس سلسلے میں سیاسی تجزیہ نگار اور رہنماؤں کی رائے ہے کہ نتیش کمار ایک مسلم چہرے کو ضرور وزیر بنائیں گے۔
سیاسی تجزیہ نگار پروفیسر عبدالقادر کہتے ہیں کہ نتیش کمار نے ہمیشہ مذہبی کاٹ سے الگ ہوکر سیاست کی ہے اور ان کی شبیہ بھی بہتر ہے خاص بات یہ ہے کہ مسلمانوں کا انتخابات میں بھلے ہی رجحان جے ڈی یو کی طرف کم رہا ہو لیکن ہمیشہ اعتراف کیا جاتا رہا ہے ۔
نتیش کمار ایک بہتر وزیراعلی ہیں جو سبھی طبقے کے ترقی کی بات کرتے ہوئے ان کی ترقی کے لیے کوشاں ہوتے ہیں۔
مسلمانوں نے نتیش کو اپنا دشمن نہیں مانتے ہیں۔
انکا کہنا ہے کہ نتیش اور مسلمانوں کا رشتہ بڑا دلچسپ ہے اور یہ اعتراف بھی کیا جاتا ہے کہ نتیش سے بہتر وزیراعلی مسلمانوں کے لیے کوئی دوسرا نہیں ہے لیکن نتیش کی صحبت یعنی کے بی جے پی سے اتحاد مسلمانوں کے لئے ٹھیک نہیں ہے۔
اس کی وجہ سے مسلمانوں کی اکثریت ان کی طرف جانے سے گریز کرتی ہے ۔
مسلمانوں کے نزدیک نتیش صاف ستھرے ہیں۔
اس صورت میں کہنا آسان ہے کہ کم از کم ایک وزیر بطور مسلم چہرہ نتیش ضرور سامنے لائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ نتیش کمار کے پاس مسلم ایم ایل اے نہیں ہیں لیکن ایم ایل سی ضرور ہیں۔
وزیر بنانے کے لیے فوری طور پر رکنیت کی ضرورت نہیں ہے کچھ ماہ بعد ایم ایل سی بناکر بھی اس خاکہ کو پر کیا جاسکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ نتیش کمار کوئی موسمی سیاستدان نہیں ہیں ان کے سیاسی سفر اور نظریات کو دیکھیں تو سب کچھ ٹھیک ہو نے کے باوجود انہوں نے اپنی حد کو مقرر کیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ جو شخص پاور میں رہتا ہے اسے کہیں نہ کہیں سمجھوتا کرنا پڑتا ہے۔
نتیش کمار نے ایسا کیا بھی ہے لیکن انہوں نے ایک حد مقرر کر رکھی ہے جہاں تک وہ رہتے ہیں اور اس کے آگے وہ سمجھوتا نہیں کرتے۔
مزید پڑھیں:نتیش سے چراغ کی بیر نے 17 سیٹوں پر بگاڑ دیا جے ڈی یو کا کھیل
ان کی ایک الگ پہچان ترقی کی ہے اور ان کے سیاسی سفر نامہ کودیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ نتیش کمار اس وجہ سے مسلمانوں کا ساتھ چھوڑ دیں گے کہ ان کے مسلم امیدوار جیت کر اسمبلی نہیں پہنچے ہیں ایسا نہیں لگتا ہے۔
ہندوستانی عوام مورچہ سیکولر کے اقلیتی سیل کے قومی صدر ڈاکٹر توصیف الرحمن خان کہتے ہیں کہ ان کی پارٹی کو اتحاد میں سات ہی نشستیں ملی تھی جس میں پانچ ریزرو تھیں ۔
مسلم امیدوار ممکن نہیں تھا لیکن ان سب کے بیچ جدیو کے گیارہ مسلم امیدواروں کا ہارنا افسوسناک ہے لیکن پھر بھی نتیش کمار پر مکمل اعتماد ہے کہ وہ کم از کم محکمہ اقلیتی فلاح کی ذمہ داری کسی مسلم چہرے کو وزیر بنا کر ہی سونپیں گے اور یہ ان کے پاس متبادل راستہ بھی ہے۔
ان کی پارٹی میں چار ایم ایل سی مسلم ہیں انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں انہوں نے اپنی پارٹی کے قومی صدر جتن رام مانجھی سے بھی گفتگو کی ہے۔
نتیش کمار سے بات کر سکیں کہ مسلم نمائندگی خاطرخواہ ہوسکے۔