گیا: یکساں سول کوڈ کی مخالفت میں بہار میں مختلف تنظیمی اداروں کی جانب سے 'عوامی رائے' مہم جاری ہے جس میں امارت شریعہ و ادارہ شریعہ سمیت دیگر تنظیمیں و ادارے پیش پیش ہیں۔ ادارہ شریعہ پٹنہ کی طرف سے موبائل فون پر لنک بھیج کر اپنی رائے اور مخالفت درج کرانے کی مہم شروع کی گئی ہے جب کہ امارت شریعہ کی طرف سے ضلع و قصبوں میں ٹیم جاکر عوامی تاثرات سے واقفیت حاصل کر رہی ہے۔ گیا ضلع میں بھی یہ مہم جاری ہے تاہم گیا ضلع میں اس حوالہ سے کچھ دانشوروں کے الگ تاثرات ہیں اور انہوں نے تنظیموں کی عوامی رابطہ مہم بند کرنے کی اپیل کی ہے۔ ان میں سے ایک پروفیسر سید عبد القادر بھی ہیں۔
عبد القادر شہر کے اقلیتی ادارہ مرزا غالب کالج میں شعبۂ اکنامکس کے سابق ایچ او ڈی اور سینئر پروفیسر ہیں، وہ سیاسی مبصر کے طور پر بھی ریاست میں معروف ہیں، انہوں نے یکساں سول کوڈ کے حوالہ سے امارت شریعہ بہار جھارکھنڈ کے امیر شریعت سید مولانا فیصل رحمانی کو لیٹر بھیج کر کئی سوالات کیے ہیں اور امارت شریعہ کی مہم کو بند کرنے کی گزارش کی ہے، انہوں نے اس کے پیچھے کئی وجوہات کو بھی گنوایا ہے اور ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ اگر سول کوڈ آبھی جاتا ہے تو اس سے مسلمانوں کو زیادہ کیا نقصان ہے، کئی ممالک میں یکساں سول کوڈ ہیں اور وہاں مسلمان بھی بستے ہیں۔
عبد القادر کا ماننا ہے کہ یونیفارم سول کوڈ صرف جملہ ہے اور یہ 2024 کے انتخاب کے لیے بی جے پی اپنے حق میں ماحول سازگار کرنے کے لیے نئے شگوفہ سے اکثریتی طبقہ کو متعارف کرانے کی کوشش میں ہے۔ ای ٹی وی بھارت سے بات کرتے ہوئے پروفیسر عبدالقادر نے کہا کہ یہ مسلمانوں کو مشتعل کرنے اور دُکھ پہنچانے کے ساتھ ووٹ پولرائز کرنے کی غرض سے صرف جملہ بازی کی گئی ہے یہ ایک نان ایشو کو ایشو بنانے کے لیے کیا گیا ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ ہمیں افسوس ہے کہ علماء کرام اور مسلم تنظیمیں اس جال میں پھنستی ہوئی نظر آرہی ہیں، اس کا سب سے اچھا جواب یہ ہے کہ مسلمان خاموشی اختیار کریں۔
انہوں نے کہا کہ یونیفارم سول کوڈ بنانا اتنا آسان نہیں ہے جیسے کہ سی اے اے بنانے کے وقت کیا کچھ ہوا۔ آج حالت یہ ہے کہ تقریباً تین برس ہوگئے لیکن کسی ایک بھی ہندو کو سی اے اے کے تحت یہاں کی شہریت نہیں ملی ہے، اُس کا رول تک فریم نہیں کیا گیا ہے۔ یہ صرف مسلمانوں کو جذباتی بنانے اور ووٹ پولرائز کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ پہلے بھی لاء کمیشن کی پیش قدمی ہو چکی ہے، بی جے پی کے لیے سول کوڈ بنانا کوئی آسان کام نہیں ہے، اُنہوں نے کہا کہ سول کوڈ سے اکثریتی طبقہ کو زیادہ نقصان ہے۔ ہندو غیر منقسم فیملی کو ٹیکس فائدہ مل رہا ہے جو کہ اس کے بننے کے بعد وہ اُنہیں نہیں ملے گا اور اس کا وہ بہت فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ فائدہ نہیں ملے گا یا پھر سبھی کو ملے گا جو ممکن نہیں ہے، ایک یہ بھی کہ ہندو معاشرہ میں بھی اتنا تضاد ہے کہ وہ سول کوڈ کو قبول نہیں کریں گے۔
ہندو طبقے میں بھی شادی کی رسم و رواج اور وراثت تہذیب ہر جگہ و علاقہ بدلتے تبدیل ہوجاتی ہے۔ حتی کہ ہندوؤں کی ہر برادری کے الگ طور طریقے ہیں۔ ان کے یہاں ہر برادری میں شادی کی رسم و رواج طور طریقے بدل جاتے ہیں۔ اس لیے ان پر زیادہ اثر ہوگا اور انہیں مخالفت کرنے پر مجبور ہونا پڑے گا۔ مسلمانوں کی طرف سے زیادہ جذبات ابھر کر سامنے آئیں تو پھر بی جے پی اپنے مقصد میں کامیاب ہوگی۔
یہ بھی پڑھیں: